40:7 40:9 আয়াতের গ্রুপের জন্য একটি তাফসির পড়ছেন
اَلَّذِیْنَ
یَحْمِلُوْنَ
الْعَرْشَ
وَمَنْ
حَوْلَهٗ
یُسَبِّحُوْنَ
بِحَمْدِ
رَبِّهِمْ
وَیُؤْمِنُوْنَ
بِهٖ
وَیَسْتَغْفِرُوْنَ
لِلَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا ۚ
رَبَّنَا
وَسِعْتَ
كُلَّ
شَیْءٍ
رَّحْمَةً
وَّعِلْمًا
فَاغْفِرْ
لِلَّذِیْنَ
تَابُوْا
وَاتَّبَعُوْا
سَبِیْلَكَ
وَقِهِمْ
عَذَابَ
الْجَحِیْمِ
۟
رَبَّنَا
وَاَدْخِلْهُمْ
جَنّٰتِ
عَدْنِ
لَّتِیْ
وَعَدْتَّهُمْ
وَمَنْ
صَلَحَ
مِنْ
اٰبَآىِٕهِمْ
وَاَزْوَاجِهِمْ
وَذُرِّیّٰتِهِمْ ؕ
اِنَّكَ
اَنْتَ
الْعَزِیْزُ
الْحَكِیْمُ
۟ۙ
وَقِهِمُ
السَّیِّاٰتِ ؕ
وَمَنْ
تَقِ
السَّیِّاٰتِ
یَوْمَىِٕذٍ
فَقَدْ
رَحِمْتَهٗ ؕ
وَذٰلِكَ
هُوَ
الْفَوْزُ
الْعَظِیْمُ
۟۠

آیت نمبر 7 تا 9

ہم نہیں جانتے کہ عرش کی حقیقت کیا ہے ، نہ اس کی صورت متعین کرسکتے ہیں اور ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ اس کے اٹھانے والے اسے کس طرح اٹھاتے ہیں۔ یہ بھی نہیں جانتے کہ اس کا ماحول کیسا ہے اور اس کے اردگرد فرشتے کیسے ہیں ، لہٰذا ہمیں ان چیزوں کی ہئیت اور ماہیت معلوم کرنے کی فضول جدوجہد نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ اشیاء انسانی ادراک کے دائرہ سے ماوراء ہیں۔ نہ ہمیں ان غیبی امور کے پیچھے پڑتا چاہئے ، جن کے بارے میں مباحثے کرنے والوں کو کوئی علم نہیں دیا گیا۔ جو بات آیات سے سمجھ میں آتی ہے ، وہ صرف یہ ہے کہ اللہ کے بعض مقرب بندے ، رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں ، اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور قرآن کریم ان کے ایمان کی تصریح اس لیے کررہا ہے کہ ان کا ربط مومن انسانوں کے ساتھ واضح ہوجائے اور اللہ کے یہ مقرب بندے ان مومن انسانوں کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں جو یہاں اس دنیا میں معرکہ خیر وشر میں کودے ہوئے ہیں ۔ یہ بندے جس انداز سے دعا کرتے ہیں اس میں ہمارے لیے تعلیم ہے کہ ہر انسان کو چاہئے کہ وہ اللہ کو یوں مخاطب کرے ۔ وہ کہتے ہیں

ربنا وسعت کل شئ رحمة وعلما (40: 7) ” اے ہمارے رب ، تو اپنی رحمت اور اپنے علم کے ساتھ ہر چیز پر چھایا ہوا ہے “۔ وہ اللہ کے سامنے طلب رحمت کے لیے یوں درخواست کرتے کہ (اے اللہ) ہم انسانوں کے لیے وہ رحمت طلب کرتے ہیں جو دراصل ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے اور اللہ کے علم کو ذریعہ بناتے ہیں جو ہر چیز کو شامل ہے۔ وہ اللہ کے سامنے کوئی نئی چیز پیش نہیں کرتے جو اللہ کے پیش نظرنہ ہو۔ اللہ کی رحمت اور علم جو ہر چیز کو محیط ہیں انہی کے واسطہ سے وہ التجا کرتے ہیں۔

فاغفر۔۔۔۔ الجحیم (40: 7) ” پس معاف کردے اور عذاب دوزخ سے بچا لے ، ان لوگوں کو جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرا راستہ اختیار کرلیا ہے “۔ اس دعا میں ایک اشارہ مغفرت اور توبہ کا ہے جو آغاز سورت میں غافر الذنب اور قابل التوب کے

ساتھ موافق ہے اور دوسرا اشارہ عذاب جہنم سے بچانے کی طرف ہے جو آغاز سورت میں شدید العقاب کے ساتھ موافق ہے۔

اس کے بعد یہ بندے دعا میں ذرا آگے بڑھتے ہیں ، اب وہ مغفرت اور عذاب جہنم سے بچانے سے بھی آگے جنت عطا کرنے کا سوال کرتے ہیں اور ان وعدوں کے پورے کیے جانے کا سوال کرتے ہیں جو اللہ نے اپنے نیک بندوں سے کر رکھے ہیں۔

ربنا۔۔۔۔ العزیز الحکیم (40: 8) ” اے ہمارے رب ، اور داخل کر ان کو ہمیشہ رہنے والی اب جنتوں میں جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے ، اور ان کے والدین اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح ہوں (ان کو بھی وہاں ان کے ساتھ ہی پہنچادے) ۔ تو بلاشبہ قادر مطلق اور حکیم ہے “۔ جنت میں داخلہ ، بیشک بڑی نعمت اور بہت بڑی کامیابی ہے ، اور اس پر مزید کہ آباء ، ازواج اور اولاد بھی ساتھ ہوں۔ یہ مزید نعمت ہے۔ اس سے اس بات کا مظاہرہ ہوتا ہے کہ مومنین جنت میں بھی اکٹھے خاندانی نظام کی شکل میں ہوں گے۔ یہ ایمان ہے جو اباء ، ازواج اور اولا کے درمیان اکٹھ پیدا کرتا ہے ، اگر ایمان نہ ہوتا تو یہ رشتے کٹ جاتے۔ اور اس فقرے پر جو آخری نتیجہ مرتب ہوتا ہے۔

انت العزیز الحکیم (40: 8) ” تو قادر مطلق اور حکیم ہے “۔ اس میں ایک طرف قوت ہے اور دوسری طرف حکمت۔ بندوں کے معاملے میں کوئی فیصلہ قوت اور حکمت کے سوا نہیں ہوسکتا۔

وقھم السیاٰت ۔۔۔۔ العظیم (40: 9) ” اور بچا دے ان کو برائیوں سے ' جس کو تو نے قیامت کے دن برائیوں سے بچا دیا اس پر تو نے بڑا رحم کیا ، یہی بڑی کامیابی ہے “۔ جنت میں داخل ہونے کی دعا کے بعد یہ دعا کہ ان کو برائیوں سے بچا ، یہ توجہ دلاتی ہے کہ ذرا غور کرو کہ یہ سیئات اور برائیاں ہی ہیں جو ان کا ارتکاب کرنے والوں کو برباد کرتی ہیں۔ اور یہ بربادی آخرت میں ظاہر ہوتی ہے ۔ یہی جہنم رسید کرتی ہیں۔ جب اللہ نے مومنین کو برائیوں سے بچالیا تو وہ جہنم سے ہی بچ گئے اور برے نتائج سے بھی ۔ یہی رحمت خداوندی کا عروج ہوگا اس مشکل وقت میں ۔ اور

وذٰلک ھوالفوز العظیم (40: 9) ” یہی بڑی کامیابی ہے “۔ کہ کوئی برائیوں سے بچ جائے۔

ایک طرف عرش کے حاملین اپنے مومنین بھائیوں کے لیے دعا گو ہیں ، دوسری جانب کفار کی حالت یہ ہے کہ وہ سخت مصیبت میں پھنس گئے ہیں ، کسی مدد گار کی تلاش میں ہیں اور کوئی مددگار نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے اور پوری کائنات کے درمیان کوئی ربط نہیں رہا ہے۔ ہر طرف سے ان پر پھٹکار اور لعنت و ملامت ہے۔ دنیا کے استکبار کے بعد اب یہاں وہ سخت ذلت میں ہیں۔ اور بےیار مددگار ہیں ، لیکن پھر بھی موہوم امیدوں کے سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ، لیکن کہاں ہے منزل مراد !