وَلَقَدْ
اَرْسَلْنَا
رُسُلًا
مِّنْ
قَبْلِكَ
مِنْهُمْ
مَّنْ
قَصَصْنَا
عَلَیْكَ
وَمِنْهُمْ
مَّنْ
لَّمْ
نَقْصُصْ
عَلَیْكَ ؕ
وَمَا
كَانَ
لِرَسُوْلٍ
اَنْ
یَّاْتِیَ
بِاٰیَةٍ
اِلَّا
بِاِذْنِ
اللّٰهِ ۚ
فَاِذَا
جَآءَ
اَمْرُ
اللّٰهِ
قُضِیَ
بِالْحَقِّ
وَخَسِرَ
هُنَالِكَ
الْمُبْطِلُوْنَ
۟۠

قرآن میں رسولوں کے احوال بطور تاریخ نہیںبیان ہوئے ہیں بلکہ بطور نصیحت بیان ہوئے ہیں۔ اس ليے قرآن میں رسولوں کے احوال محدود طورپر صرف اتنا ہی بتائے گئے ہیں جتنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک نصیحت کےلیے ضروری تھے۔

رسول کا اصل کام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ خدا کا پیغام اس کے تمام ضروری آداب اور تقاضوں کے ساتھ لوگوں تک پہنچا دے۔ اس کے بعد جہاں تک معجزہ کا تعلق ہے وہ تمام تر اللہ کے اختیا رمیں ہے۔ وہ اپنی مصلحت کے تحت کبھی انھیں ظاہر کرتا ہے اور کبھی ظاہر نہیں کرتا۔

معجزے زیادہ تر ان قوموں کو دکھائے گئے ہیں جن کی سرکشی کی بنا پر خدا کا فیصلہ تھا کہ انھیں ہلاک کردیا جائے۔ اس ليے آخری طورپر اتمام حجت کےلیے انھیں معجزہ بھی دکھایا گیا۔ مگر پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کا معاملہ یہ تھا کہ اس کا بڑا حصہ بالآخر مومن بننے والا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو امکانی طورپر یہ صلاحیت رکھتے تھے کہ وہ تاریخ کے پہلے گروہ بنیں جس نے محض دلیل کی بنیاد پر حق کا اعتراف کیا اور اپنے آزاد ا رادہ سے اپنے آپ کو اس کے حوالے کردیا۔ اس ليے ان لوگوں کے مطالبہ کو نادانی پر محمول کرتے ہوئے انھیں خارق عادت معجزے نہیں دکھائے گئے۔