تِلْكَ
الدَّارُ
الْاٰخِرَةُ
نَجْعَلُهَا
لِلَّذِیْنَ
لَا
یُرِیْدُوْنَ
عُلُوًّا
فِی
الْاَرْضِ
وَلَا
فَسَادًا ؕ
وَالْعَاقِبَةُ
لِلْمُتَّقِیْنَ
۟

آیت 83 تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا ط ”دراصل یہاں پر اقتدار کی طلب اور ہوس کی مذمت ہے نہ کہ بوقت ضرورت اقتدار کی ذمہ داری سنبھالنے کی۔ جیسے حضور ﷺ کی انقلابی جدوجہدّ کے نتیجے میں مدینہ کی چھوٹی سی ریاست وجود میں آگئی تو آپ ﷺ کو اس کے سربراہ کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالنا پڑی۔ لیکن نہ تو آپ ﷺ کی جدوجہد کا مقصد حصول اقتدار تھا اور نہ ہی آپ ﷺ اس کے خواہش مند تھے۔ چناچہ اقتدار کا خواہش مند ہونے اور اقتدار کی ذمہ داری نبھانے کے لیے آمادہ ہوجانے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اس حوالے سے یہاں پر واضح کیا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یقیناً آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے مخصوص کر رکھا ہے جو اس کے دین کی سر بلندی کے لیے جدوجہد میں خود کو کھپا رہے ہیں۔ لیکن اس کٹھن راستے کے مسافروں کو اس حقیقت سے آگاہ ہونا چاہیے کہ اگر اس جدوجہد کے دوران میں دل کے کسی گوشے میں ہوس اقتدار کی کوئی کو نپل پھوٹ پڑی یا اپنا نام اونچا کرنے کی خواہش نے نفس کے کسی کونے میں جڑ پکڑ لی تو اللہ کے ہاں ایسا ”مجاہد“ نااہل disqualified قرار پائے گا اور اس کی ہر ”جدوجہد“ مستردکر دی جائے گی۔وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ ”آخرت کی نعمتوں اور اس کے عیش و آرام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے متقی بندوں کے لیے مخصوص کر رکھا ہے۔