21:22 21:25 আয়াতের গ্রুপের জন্য একটি তাফসির পড়ছেন
لَوْ
كَانَ
فِیْهِمَاۤ
اٰلِهَةٌ
اِلَّا
اللّٰهُ
لَفَسَدَتَا ۚ
فَسُبْحٰنَ
اللّٰهِ
رَبِّ
الْعَرْشِ
عَمَّا
یَصِفُوْنَ
۟
لَا
یُسْـَٔلُ
عَمَّا
یَفْعَلُ
وَهُمْ
یُسْـَٔلُوْنَ
۟
اَمِ
اتَّخَذُوْا
مِنْ
دُوْنِهٖۤ
اٰلِهَةً ؕ
قُلْ
هَاتُوْا
بُرْهَانَكُمْ ۚ
هٰذَا
ذِكْرُ
مَنْ
مَّعِیَ
وَذِكْرُ
مَنْ
قَبْلِیْ ؕ
بَلْ
اَكْثَرُهُمْ
لَا
یَعْلَمُوْنَ ۙ
الْحَقَّ
فَهُمْ
مُّعْرِضُوْنَ
۟
وَمَاۤ
اَرْسَلْنَا
مِنْ
قَبْلِكَ
مِنْ
رَّسُوْلٍ
اِلَّا
نُوْحِیْۤ
اِلَیْهِ
اَنَّهٗ
لَاۤ
اِلٰهَ
اِلَّاۤ
اَنَا
فَاعْبُدُوْنِ
۟

آیت 22 لَوْ کَانَ فِیْہِمَآ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا ج ”اس کائنات کا نظم و ضبط زبان حال سے گواہی دے رہا ہے کہ یہ ایک وحدت Unitary System ہے۔ اس کا مدبر ومنتظم ایک ہی ہے اور اس کے انتظام میں ایک سے زیادہ آراء کی تعمیل و تنفیذ کا کوئی امکان نہیں ہے۔ جیسا کہ سورة بنی اسرائیل میں فرمایا گیا : قُلْ لَّوْ کَانَ مَعَہٗٓ اٰلِہَۃٌ کَمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لاَّبْتَغَوْا اِلٰی ذِی الْعَرْشِ سَبِیْلاً ”آپ ﷺ ان سے کہیے کہ اگر اللہ کے ساتھ دوسرے معبود ہوتے جیسا کہ یہ کہتے ہیں تب تو وہ ضرورتلاش کرتے صاحب عرش کی طرف کوئی راستہ“۔ اس سے یہ دلیل بھی نکلتی ہے کہ کوئی بھی ادارہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا اس کا سربراہ ایک ہی ہونا چاہیے اور اگر کسی ادارے کے ایک سے زیادہ سربراہ ہوں گے تو اس کا نظم و نسق تباہ ہوجائے گا۔ یہی مثال مرد کی قوامیت کی دلیل بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ خاندان جیسا اہم اور حساس ادارہ ایک جیسے اختیارات کے حامل دو سربراہوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اور جب یہ ثابت ہوگیا کہ سربراہ ایک ہی ہونا چاہیے تو پھر اس کا زیادہ حق دار مرد ہی ہے ‘ کیونکہ قرآن کے فرمان کے مطابق مرد ہی ”قوام“ ہے : اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ ط النساء : 34 ”مرد حاکم ہیں عورتوں پر اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس لیے بھی کہ وہ اپنا مال خرچ کرتے ہیں“۔ ہمارے ہاں ملکی سطح پر زیادہ تر انتظامی مسائل پارلیمانی نظام حکومت میں اختیارات کی ثنویت duality کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس نظام میں سربراہ مملکت اور سربراہ حکومت کے عہدے الگ الگ ہیں۔ ان دو عہدوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم اصولی طور پر ممکن ہی نہیں۔ چناچہ اگر وزیر اعظم با اختیار ہوگا تو صدر کے عہدے کی حیثیت لازمی طور پر نمائشی ہوگی اور اگر صدر فعال ہوگا تو وزیر اعظم کٹھ پتلی بن کر رہ جائے گا۔ اس کے مقابلے میں صدارتی نظام منطقی اور توحیدی نظام ہے جس میں ایک ہی شخصیت سربراہ مملکت بھی ہے اور سربراہ حکومت بھی۔