وَكَمْ
قَصَمْنَا
مِنْ
قَرْیَةٍ
كَانَتْ
ظَالِمَةً
وَّاَنْشَاْنَا
بَعْدَهَا
قَوْمًا
اٰخَرِیْنَ
۟

وکم قصمنا من قریۃ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حصیدا خمدین (11 تا 51) ”

قصم کا مفہوم ہے شدت سے کاٹنا ‘ اس لفظ کی آواز کی شدت بھی اس کے ملسوم کو ظاہر کرتی ہے۔ اس لفظ کے تلفظ ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ ظالم بستیوں کو بڑی شدت اور سختی سے اس طرح توڑا پھوڑا گیا کہ ان کا وجود ہی ختم کردیا گیا اور ان کی حالت یہ ہوگئی کہ ان کو پیس کر رکھ دیا گیا۔

وانشانا ۔۔۔۔۔۔۔ اخرین (12 : 11) ” اور ان کے بعد دوسری کسی قوم کو اٹھایا “۔ یہاں قصم کا فعل بستیوں پر وارد ہوتا ہے اور بستیوں اور ان کے باشندوں سب کو پیس کر رکھ دیا جاتا ہے لیکن انشا کا فعل صرف قوم پر وارد ہوتا ہے ‘ پہلے قوم پیدا ہوتی ہے اور پھر اس کے بعد وہ بستیاں آباد کرتی ہے۔ یہ تو ہے تو حقیقت واقعہ کہ تباہی بستیوں پر آتی ہے اور اس میں آبادی بھی ہلاک ہوجاتی ہے۔ اور جب اٹھایا جاتا ہے تو پہلے اقوام کو اٹھا یا جاتا ہے اور وہ پھر بستیاں آباد کرتی ہیں لیکن جس انداز میں ‘ ایک منظر کی شکل میں ہلاکت و بربادی کو پیش کیا گیا ہے ‘ یہ قرآن کریم کا مخصوص فنی اسلوب ہے۔

جب یہ تباہی آتی ہے تو اس میں لوگوں کا منظر بھی بڑا عجیب ہے۔ ان کی حالت یوں ہوتی ہے جس طرح پنجرے میں چوہے بند ہوجاتے ہیں ‘ جب تک وہ ہلاک نہ کردیئے جائیں ‘ وہ پنجرے کے اندر ادھر ادھر بھاگتے ہی رہتے ہیں۔