وَلَمَّا
فَصَلَتِ
الْعِیْرُ
قَالَ
اَبُوْهُمْ
اِنِّیْ
لَاَجِدُ
رِیْحَ
یُوْسُفَ
لَوْلَاۤ
اَنْ
تُفَنِّدُوْنِ
۟

آیت 94 وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيْرُ قَالَ اَبُوْهُمْ اِنِّىْ لَاَجِدُ رِيْحَ يُوْسُفَ لَوْلَآ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ یہاں پر یہ بات قابل غور ہے کہ جونہی حضرت یوسف کی قمیص لے کر قافلہ مصر سے چلا اسی لمحے کنعان میں حضرت یعقوب کو اپنے بیٹے کی خوشبو پہنچ گئی۔ مگر اس سے پہلے ایک طویل عرصے تک آپ نے اپنے بیٹے کے ہجر میں رو رو کر اپنی آنکھیں سفید کرلیں مگر یہ خوشبو نہیں آئی۔ اس سے یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ کوئی نبی ہو یا ولی ‘ کسی معجزے یا کرامت کا ظہور کسی بھی شخصیت کا ذاتی کمال نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہے۔ وہ جس کو جس وقت جو علم چاہے عطا فرما دے یا اس کے ہاتھوں جو چاہے دکھا دے۔ جیسے ایک دفعہ حضرت عمر کو مسجد نبوی میں خطبہ کے دوران اللہ تعالیٰ نے شام کے علاقے میں واقع اس میدان جنگ کا نقشہ دکھا دیا جہاں اس وقت اسلامی افواج برسر پیکار تھیں اور آپ نے فوج کے کمانڈر ساریہ کو ایک حربی تدبیر اختیار کرنے کی بآواز بلند تلقین فرمائی۔ جناب ساریہ نے میدان جنگ میں حضرت عمر کی آواز سنی اور آپ کی ہدایت پر عمل کیا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حضرت عمر کو اختیار تھا کہ جب چاہتے ایسا منظر دیکھ لیتے۔