12:59 12:61 আয়াতের গ্রুপের জন্য একটি তাফসির পড়ছেন
وَلَمَّا
جَهَّزَهُمْ
بِجَهَازِهِمْ
قَالَ
ائْتُوْنِیْ
بِاَخٍ
لَّكُمْ
مِّنْ
اَبِیْكُمْ ۚ
اَلَا
تَرَوْنَ
اَنِّیْۤ
اُوْفِی
الْكَیْلَ
وَاَنَا
خَیْرُ
الْمُنْزِلِیْنَ
۟
فَاِنْ
لَّمْ
تَاْتُوْنِیْ
بِهٖ
فَلَا
كَیْلَ
لَكُمْ
عِنْدِیْ
وَلَا
تَقْرَبُوْنِ
۟
قَالُوْا
سَنُرَاوِدُ
عَنْهُ
اَبَاهُ
وَاِنَّا
لَفٰعِلُوْنَ
۟

سیاق کلام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ان کو عزت و احترام سے بٹھایا اور ان کو اس طرح سبق پڑھانا شروع کیا۔

ولما جھزھم ۔۔۔۔۔ من ابیکم (12 : 59) “ پھر جب اس نے ان کا سامان تیار کروادیا تو چلتے وقت ان سے کہا “ اپنے سوتیلے بھائی کو میرے لانا ”۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی ہی ملاقات میں وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ بےتکلف ہوگئے تھے ، اس طرح انہوں نے عزیز مصر کو بتا دیا کہ وہ کون ہیں اور یہ کہ ان کا ایک سوتیلا بھائی بھی ہے جسے ہمارا باپ اپنے سے جدا کرنا نہیں چاہتا۔ اس لئے وہ نہیں آیا۔ جب ان لوگوں کا سامان تیار ہوگیا تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کہہ دیا کہ وہ تمہارے اس بھائی سے ملنا چاہتے ہیں۔ تم دیکھتے نہیں ہو کہ میں خریداروں کو ٹھیک ٹھیک حق دیتا ہوں ، اگر تمہارا بھائی آجائے تو اس کا حصہ بھی ادا کردوں گا۔ اور دوسروں کی طرح تمہاری قدرو منزلت کروں گا۔

الا ترون انی ۔۔۔۔۔۔۔ ولا تقربون (12 : 59- 60) “ دیکھتے نہیں ہو کہ میں کس طرح نہ بھر کردیتا ہوں اور کیسا اچھا مہمان نواز ہوں۔ اگر تم اسے نہ لاؤ گے تو میرے پاس تمہارے لئے کوئی غلہ نہیں ہے۔ بلکہ تم میرے قریب بھی نہ پھٹکنا ”۔

ان کو تو معلوم تھا کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) حضرت یوسف (علیہ السلام) کی گمشدگی کے بعد یوسف (علیہ السلام) کے بھائی کو ہر وقت ساتھ رکھتے تھے اس لئے انہوں نے کہہ دیا کہ اسے لانا ان کے لئے کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ان کے باپ اس کو چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوں ، بہرحال وہ کوشش کریں گے کہ وہ دوسری بار ان کے ساتھ آجائے۔

قالوا سنراودعنہ اباہ وانا لفعلون (12 : 61) “ انہوں نے کہا “ ہم کوشش کریں گے کہ والد صاحب اسے بھیجنے پر راضی ہوجائیں ، اور ہم ایسا ضرور کریں گے ”۔ (نرادو ) کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کام کے لئے انہیں بہت ہی سعی کرنی ہوگی۔

یوسف (علیہ السلام) نے اپنے ملازمین کو حکم دے دیا کہ جو در ثمن یا سامان وہ غلے کے مبادلے میں لائے تھے وہ بھی انہیں ان کے بارے میں رکھ کو لوٹا دیا جائے ، ہو سکتا ہے کہ اس میں کچھ نقدی ہو یا کوئی صحرا دی قیمتی غلات ہوں یا چمڑے اور دوسری چیزیں مثلاً اون وغیرہ جو شہروں میں اچھی قیمت پر بکتے ہیں۔ مقصد یہ تھا کہ جب یہ اپنے بار کھولیں گے تو یہ اپنی چیزیں دیکھ کر حیران رہ جائیں گے اور پہچان لیں گے کہ یہ تو ان کی اشیاء ہیں۔