وَعِنْدَهٗ
مَفَاتِحُ
الْغَیْبِ
لَا
یَعْلَمُهَاۤ
اِلَّا
هُوَ ؕ
وَیَعْلَمُ
مَا
فِی
الْبَرِّ
وَالْبَحْرِ ؕ
وَمَا
تَسْقُطُ
مِنْ
وَّرَقَةٍ
اِلَّا
یَعْلَمُهَا
وَلَا
حَبَّةٍ
فِیْ
ظُلُمٰتِ
الْاَرْضِ
وَلَا
رَطْبٍ
وَّلَا
یَابِسٍ
اِلَّا
فِیْ
كِتٰبٍ
مُّبِیْنٍ
۟
٣

(آیت) ” نمبر 59۔

اللہ کے کامل اور محیط علم کی یہ نہایت خوبصورت تصویر ہے ۔ یہ علم اس قدر محیط ہے کہ زمان ومکان کا ایک ذرہ بھی اس سے باہر نہیں ہے ۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اس کے علم میں ہے ۔ بروبحر کے تمام موجودات اس کے علم کے دائرے کے اندر ہیں ۔ فضاؤں اور زمین کی گہرائیوں میں پائے جانے والے تمام ذرات بھی اس کے دائرہ علم کے اندر ہیں ۔ خشک وتر اور زندہ و مردہ ہر چیز اس کے علم میں ہے ۔

ہمارے اس بیان اور آیت زیر بحث کے اسلوب بیان میں بھی زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ قرآن کا انداز نہایت ہی منفرد ‘ شامل وکامل ‘ گہرا وعمیق اور نہایت ہی موثر اور معنی آفریں ہے ۔

ہمارا را ہوار خیال اس مختصر آیت کے پیچھے سرپٹ بھاگتا ہے ۔ ہمارا خیال عالم معلومات اور عالم مجہولات میں گھوڑے دوڑاتا ہے ۔ انسان عالم غیب وعالم شہادت پر غور وفکر کرتا ہے تو اس کا وجدان اور مشاہدہ کانپ اٹھتا ہے کہ ہر وادی میں اور ہر طرف اسے مشاہدات ومظاہر کی نئی نئی شکلیں نظر آتی ہیں ۔ انسان کی جدوجہد بڑی تیزی سے اپنی تلاش نامعلوم کے لئے جاری ہے ۔ وہ غیب کے پردوں کو پھاڑ کر سب کچھ عیاں کرنا چاہتا ہے ۔ وہ ماضی اور مستقبل کے تمام پردے ہٹانا چاہتا ہے ۔ زمان ومکان کے آفاق اور گہرائیوں میں وہ دور تک جھانکنا چاہتا ہے لیکن وہ جس سمت سے آگے بڑھتا ہے اسے نظر آتا ہے کہ غیب کی چابیاں تو اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں ۔ ایک حد پر جاکر اس کو علم واکتشافات کے دروازے مقفل نظرآتے ہیں اور آگے کی چابیاں اللہ کے پاس ہیں ۔ غرض انسان کا وجدان کائنات کی تاریک وادیوں اور سمندر کی گہرائیوں میں دوڑتا ہے ۔ یہ سب جگہیں اللہ کے علم کے زاویے سے عیاں ہیں ۔ پھر ہمارا شعور دنیا کے ہر خزاں میں گرنے والے پتوں کی طرف جاتا ہے ‘ جن کی تعداد سے انسان بیخبر ہیں لیکن اللہ کی آنکھ ایک ایک کو دیکھ رہی ہے کہ کس طرح وہ امر ربی سے گرتا ہے اور اس پوری کائنات میں یہ علم ان پتوں تک وسیع ہے ۔ اس کائنات میں اگنے والے بیشمار پودوں سے نکلنے والے چھوٹے چھوٹے بیج اور ان کا ایک ایک دانہ جو ظلمات ارض میں کہیں پڑا ہے وہ بھی اللہ کی نظر میں ہے ۔ اس وسیع و عریض کائنات کا ہر خشک وتر اللہ کی نظروں میں ہے اور کوئی بھی چیز علم الہی سے باہر نہیں ہے ۔

غرض یہ تصور سر کو چکرا دیتا ہے اور اس سے عقل مبہوت ہوجاتی ہے ۔ یہ تصور اور شعور ہمیں تاریخ اور زمانوں کی طوالتوں میں لے جاتا ہے ۔ یہ آفاق کائنات کی دوریوں کا تصور دلاتا ہے ۔ عالم معلوم اور مشاہد اور عالم غیب اور مجہول کا تصور انسان کرتا ہے تو اس میں ہر طرف وسعت ہی وسعت نظر آتی ہے ۔ را ہوار خیال تھک کر چور چور ہوجا تا ہے لیکن قرآن کریم کے چند کلمات ان وسعتوں اور دوریوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں ۔ یہ ہے قرآن کا اعجاز ‘ اعجاز عبارت اور اعجاز خیال جس پہلو سے بھی ہم اس مختصر آیت پر نگاہ ڈالیں یہ معجز ہے اور یہ اعجاز ہمیں واضح طور پر اس طرف لے جاتا ہے کہ اس عظیم کلام کا مصدر اور منبع کیا ہے ؟

قرآن کریم جو اسلامی تصور حیات کا مصدر اور سرچشمہ ہے اور جس سے اسلامی ذہنیت پیدا ہوتی ہے ‘ وہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ اس کائنات کے دو جہان ہیں ‘ ایک عالم غیب ہے اور دوسرا عالم مشاہدہ یا عالم شہادت ۔ لہذا انسان جس جہان میں رہتا ہے اس کے تمام حقائق غیبی نہیں ہیں اور نہ اس کا واسطہ عالم مجہولاتا سے ہے بلکہ یہاں عالم شہادت بھی ہے ۔

اس کائنات کے اندر بعض ناقابل تغیر قوانین اور سنن ہیں اور انسان کو اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ سنن کائنات میں سے ضروری کا علم حاصل کرسکتا ہے ۔ اپنی اس صلاحیت اور ضرورت کے مطابق اسے یہ صلاحیت اس لئے دی گئی ہے کہ وہ یہاں خلافت ارضی کے منصب سے وابستہ فرائض ادا کرسکے اور اپنی زندگی کو سنن کائنات کے ساتھ ہم آہنگ کرسکے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس قدر صلاحیت دی ہے جس قدر اسے منصب خلافت کے تقاضے پورے کرنے کے لئے درکار ہے ، تاکہ انسان کائناتی قوتوں کو مسخر کر کے اس زمین کو آباد کرسکے ‘ یہاں زندگی کو ترقی دے سکے اور انسانی زندگی کی بہتری کے لئے اللہ نے اس کائنات کے اندر جو ذخائر ودیعت کئے ہیں انہیں کام میں لا سکے ۔

لیکن ان قوانین قدرت کے ساتھ ساتھ مشیت الہی بھی بطور ایک حقیقت کے موجود ہے ۔ اگرچہ یہ تمام قوانین قدرت مشیت ایزدی کا نتیجہ ہیں لیکن یہ قوانین قدرت مشیت الہیہ کے بجائے تقدیر الہی کے مطابق کام کرتے ہیں ۔ یہ تمام قوانین قدرت الہیہ کے تحت چلتے ہیں ۔ یہ کوئی خود مختار یا کنٹرول سے باہر مشینری نہیں ہے ۔ اللہ کی قدرت اور اس کی تقدیر ان قوانین پر پوری طرح محیط ہے ۔ اس کائنات کی ہر حرکت اس کے دائرہ قدرت میں ہے ۔ اگرچہ بظاہر یہ کائنات ایک ناموس کے مطابق رواں دواں ہے لیکن یہ ناموس اللہ کا پیدا کردہ ہے ۔ اللہ کا نظام قضا وقدر ان قوانین قدرت کو نافذ کرتا ہے ۔ نظام قضا وقدر عالم غیب کا حصہ ہے اور اس کے بارے میں علم صرف اللہ کو ہوتا ہے ۔ لوگوں نے جو سائنسی اصول وضع کر رکھے ہیں وہ بھی ظنی اور احتمالی ہوتے ہیں اور آج تک انسان نے اس کائنات کے جو راز معلوم کئے ہیں اور ان کے بھی یہ اعتراف موجود ہے ۔

ذرا انسان کے اس مختصر وجود پر غور کیجئے ۔ اس کے اندر ہر لحظہ لاکھوں ذرات سرگرداں ہیں ۔ ہی سب تصرفات انسانی نقطہ نظر سے غیب ہیں ۔ اگرچہ یہ تمام حرکات اور مؤثرات خود اس کے وجود کے اندر روبعمل رہتے ہیں ۔ پھر اس عظیم کائنات کے اندر جو مؤثرات کام کر رہے ہیں وہ تو لاتعدد الا تحصی ہیں۔ انسان ان میں سے کچھ بھی نہیں جانتا ۔

عالم غیب انسان کے ماضی پر بھی محیط ہے اور اس کائنات کے ماضی پر بھی محیط ہے ۔ انسان اور اس کے اردگرد پھیلی ہوئی اس کائنات اور اس کی موجودہ حالت پر بھی عالم غیب محیط ہے ۔ نیز ان کے مستقبل پر بھی عالم غیب محیط ہے ۔ یہ سب امور سنن الہیہ کے مطابق روبعمل ہیں جن میں سے نہایت ہی قلیل مقدار کا علم ابھی تک انسان کو ہوسکا ہے ۔ انسان ان سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور انہیں منظم اور مربوط طریقے سے فریضہ خلافت کی ادائیگی میں استعمال کر رہا ہے ۔

انسان اس کائنات میں اپنی خواہش کے مطابق نہیں آتا ۔ نہ اسے یہ علم ہوتا ہے کہ اب وہ اس جہان میں وارد ہوگا ۔ جب وہ اس جہان سے رخصت ہوتا ہے تب بھی اس رخصتی میں اس کی خواہش شامل نہیں ہوتی اور نہ اسے علم ہوتا ہے کہ کب اسے جانا ہے یہی صورت حال ہر زندہ مخلوق کی ہے ۔ انسان جس قدر علم بھی حاصل کرلے اور اس کی معرفت اور آگاہی کا دائرہ کتنا ہی وسیع تر کیوں نہ ہوجائے وہ اس صورت حالات میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتا ۔

اسلامی ذہنیت اور اسلامی ماہیت کے اعتبار سے ” غیبی علمی “ نوعیت رکھتی ہے ۔ اس لئے کہ غیب اور عدم علم اسائنسی اعتبار سے بھی بھی حقیقی علم ہے ۔ جو لوگ غیب کا انکار کرتے ہیں وہ جاہل ہیں حالانکہ وہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ بہت کچھ جاننے والے ہیں ۔

اسلامی فکر کی اساس یہ ہے کہ ایک مسلمان ایسے غیبی حقائق کے وجود کا اقرار کرتا ہے جس کا حقیقی علم صرف اللہ کو ہے ۔ اس علم کی کنجیاں اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔ پھر اسلامی فکر یہ بھی یقین رکھتی ہے کہ یہ کائنات سنن الہیہ کے مطابق چل رہی ہے ۔ اور ان سنن الہیہ میں سے بعض ایسے ہیں جن کا علم فریضہ خلافت فی الارض کے لئے ضروری ہے ۔ ان اصولوں کے ساتھ مضبوط اساسوں پر ہم آہنگی اختیار کرنا بھی ضروری ہے ۔ چناچہ اسلامی ذہنیت اور اسلامی فکر کی وجہ سے انسان نہ علم ومعرفت سے محروم ہوتا ہے اور نہ حقیقت واقعیہ کے ادراک سے محروم ہوتا ہے ۔ اس عالم شہادت سے آگے ایک عالم غیب ہے اور اس عالم مغیبات کا علم صرف اللہ کو ہے اور اپنے بندوں میں سے اگر اللہ چاہے تو کسی قدر علم کسی کو عطا کر دے ۔

ایمان بالغیب وہ دشوار گزار گھاٹی ہے جس کو انسان نے ضرور عبور کرنا ہے ۔ جب تک وہ اس مقام پر فائز نہیں ہوتا وہ حیوانی مقام سے بلند ہو کر انسانی مقام تک پہنچ ہی نہیں سکتا ۔ کیونکہ حیوان صرف ان امور کا ادراک کرسکتا ہے جو اس کے حواس کے دائرے میں آتے ہیں ۔ اس حقیقت کا ادراک صرف انسان ہی کرسکتا ہے کہ یہ کائنات صرف اسی قدر محدود نہیں ہے جو اس کے حواس میں آتی ہے یہ بہت ہی وسیع ہے بلکہ اس سے بھی وسیع تر ہے جو بذریعہ آلات اس کے ترقی دادہ حواس کے دائرہ ادراک میں آرہی ہے ۔ یہ اسلامی تصور اس کائنات کے تصور سے کہیں وسیع تر تصور ہے بلکہ اس کائنات کے بارے میں انسان سوچ کے اندر یہ ایک دور رس تبدیلی ہے ۔ یہ انسانی شخصیت کے بارے میں بھی انسانی سوچ میں ایک دور رس تبدیلی ہے ۔ انسانی شخصیت کے اندر جو قوتیں کار فرما ہیں ان کے بارے میں بھی انقلابی سوچ ہے ۔ اس سوچ کے تحت ایک انسان کے اندر اس کائنات کے بارے میں اور اس کے پیچھے کام کرنے والی قوتوں کے بارے میں ایک نیا احساس پیدا ہوتا ہے ۔ اس تصور کے اثرات اس کرہ ارض پر انسان کی عملی زندگی پر بھی پڑتے ہیں اس لئے کہ وہ انسان جو صرف ماحول کا اپنے حواس کے ساتھ ایک محدود مشاہدہ کرتا ہے اس انسان کے مساوی نہیں ہو سکتا جو اپنی بصیرت اور اپنے نظریات کی وجہ سے اس کائنات کے بارے میں وسیع تر سوچ رکھتا ہے ۔ یہ عقلمند انسان فطرت کائنات کی آواز کو اپنی شخصیت کے نہاں خانے سے سنتا ہے اور اپنے دل کی گہرائیوں سے اشارات پاتا ہے ۔ وہ یہ شعور رکھتا ہے کہ اس کا دائرہ کار زمان ومکان کی قید سے زیادہ وسیع ہے ۔ اور اس کی شخصیت اس سے کہیں وسیع ہے جو وہ سمجھتا ہے یا اپنی عمر کے ایک مختصر عرصے میں وہ سمجھ سکتا ہے ۔ وہ اس بات کا شعور رکھتا ہے کہ اس ظاہری اور پوشیدہ کائنات کے پس پست ایک عظیم حقیقت ہے اور یہ حقیقت اس کائنات سے بڑی اور اس کی خالق ہے ۔ اس عظیم حقیقت کے وجود ہی سے تمام کائنات کا وجود مستعاد ہے ۔ یہ ہے حقیقت باری تعالیٰ جسے آنکھیں نہیں پا سکتیں اور جو انسانی کی عقل کے احاطے میں نہیں آسکتی ۔

ایمان بالغیب وہ یونٹ ہے جہاں سے انسان اور حیوان کے راستے جدا ہوتے ہیں اور انسان عالم حیوانیت سے بلند ہوتا ہے ۔ لیکن ہر زمانے کی طرح ہمارے دور کے مادہ پرست بھی یہ چاہتے ہیں کہ انسان کو انسانیت کے مقام بلند سے گرا کر عالم حیوانیت کی طرف لوٹا کرلے آئیں جہاں وہی چیز حقیقت سمجھی جاتی ہے جو حواس کے دائرے میں آتی ہے ۔ یہ مادیت پسند اس بات کو ترقی پسندی کہتے ہیں حالانکہ یہ دراصل رجعت پسندی اور ناکامی ہے جس سے اللہ نے مسلمانوں کو ابھی تک بچایا ہے ۔ لہذا ان کی امتیازی صفت ہی یہ قرار دی گئی کہ یومنون بالغیب (جو غیب پر ایمان لاتے ہیں) اور یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے ۔ جس پر ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں ۔ یہ نکتہ گرنے والوں اور منہ موڑنے والوں کے لئے ہلکات اور تباہی کا مقام ہے ۔

جو لوگ غیب اور سائنس کا باہم تقابل کرکے بحث کرتے ہیں وہ تاریخی واقعات کی فیصلہ کن تعبیر کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک گویا مستقبل ان کے سامنے یقینی صورت میں موجود ہے حالانکہ جدید ترین سائنسی انکشافات یہ ہیں کہ مستقبل کا دارومدار محض احتمالات پر ہے ۔ مستقبل کے بارے میں انسان کوئی حتمی بات نہیں کہہ سکتا ۔

مارکس کی یہ عادت تھی کہ وہ تاریخی اسباب کی روشنی میں مستقبل کے لئے قطعی فیصلے کرتا تھا ۔ لیکن آج کا انسان بچشم سردیکھ سکتا ہے کہ مارکس کی ان تمام پیشین گوئیوں کا حشر کیا ہوا ؟

مارکس نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ سب سے پہلے انگلستان میں کمیونزم نافذ ہوگا کیونکہ انگلستان صنفی اعتبار سے چوٹی پر پہنچ چکا ہے ۔ وہاں ایک طرف سرمایہ دار عروج پر ہے اور دوسری جانب جانب مزدور فقر وفاقے کے اعتبار سے اپنی آخری منزل تک پہنچ چکا ہے ۔ لیکن بعد کے ادوار میں ہم نے دیکھا کہ نہایت ہی پسماندہ اقوام کے اندر کمیونزم کامیاب ہوا ‘ مثلا روس اور چین میں اور صنعتی اعتبار سے ترقی یافتہممالک میں سے کسی ایک میں بھی کمیونسٹ انقلاب برپا نہ ہوا۔

لینن اور اسٹالن نے یہ پیشین گوئی کی تھی کہ سوشلسٹ دنیا اور سرمایہ دار دنیا کے درمیان کسی وقت بھی عالمگیر جنگ ہوگی ‘ لیکن ان دونوں کے خلیفہ خرد شیف باہم سلامتی اور دیانت کے جھنڈے اٹھائے ہوئے ہیں ۔۔۔۔ ۔۔ میرا خیال ہے کہ ان لوگوں کی پیشین گوئیوں پر مزید بحث کرکے اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ان لوگوں کی یہ یقینی پیشین گویاں اس لائق نہیں کہ ان پر کوئی سنجیدہ بحث کی جائے ۔

یقینی حقیقت اگر کوئی ہے تو یہی غیبی حقیقت ہے اور اس کے سوا تمام باتیں محض احتمالات ہیں ۔ اگر کوئی حتمی بات ہے تو وہی ہے جس کا فیصلہ اللہ کی قضا وقدر نے کردیا ہے اور مستقبل کے بارے میں اللہ نے کیا فیصلہ کیا ہے ‘ اس کا کسی کو علم نہیں ہے سوائے اللہ کے ۔ ہاں تقدیر الہی کے اٹل حقیقت ہونے کے باوجود اس کائنات کے بارے میں کچھ سنن الہیہ ایسی بھی ہیں جو اٹل ہیں اور جو تقدیر الہیہ کا حصہ ہیں ۔ ان میں سے بعض سنن الہیہ تک انسان کی رسائی بھی ممکن ہے اور ان تک رسائی حاصل کرکے انسان اپنے منصب خلافت الہیہ کے فرائض کو بہت ہی اچھی طرح ادا کرسکتا ہے ۔ لیکن ان وسائل کے باوجود اللہ کا فیصلہ اور اس کی تقدیر سپریم ہے اور تقدیر الہی نامعلوم ہے ۔ یہ اس کائنات کی اصل حقیقت ہے اور (ان ھذا القرآن یھدی للتی ھی اقوم) (17 : 9) یہ قرآن کریم اس بات کی طرف راہنمائی کرتا ہے جو نہایت ہی سیدھی ہے ۔

اب روئے سخن غیب کے علوم کی کنجیوں سے اس کائنات کے ایک خاص پہلو کی طرف مر جاتا ہے ۔ یعنی ذات انسانی کی طرف جو اس کائنات ہی کا ایک حصہ ہے اور اللہ کی قدرت کے کرشموں میں سے اہم کرشمہ ہے جس سے اللہ کے علم محیط کا بہت ہی اچھی طرح اظہار ہوتا ہے ۔