قُلْ
اِنِّیْ
عَلٰی
بَیِّنَةٍ
مِّنْ
رَّبِّیْ
وَكَذَّبْتُمْ
بِهٖ ؕ
مَا
عِنْدِیْ
مَا
تَسْتَعْجِلُوْنَ
بِهٖ ؕ
اِنِ
الْحُكْمُ
اِلَّا
لِلّٰهِ ؕ
یَقُصُّ
الْحَقَّ
وَهُوَ
خَیْرُ
الْفٰصِلِیْنَ
۟
٣

(آیت) ” قُلْ إِنِّیْ عَلَی بَیِّنَۃٍ مِّن رَّبِّیْ وَکَذَّبْتُم بِہِ مَا عِندِیْ مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِہِ إِنِ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلّہِ یَقُصُّ الْحَقَّ وَہُوَ خَیْْرُ الْفَاصِلِیْنَ (57) ۔

” کہو ” میں اپنے رب کی طرف سے ایک دلیل روشن پر قائم ہوں اور تم نے اسے جھٹلا دیا ہے ۔ اب میرے اختیار میں وہ چیز ہے نہیں جس کے لئے تم جلدی مچا رہے ہو ‘ فیصلے کا سارا اختیار اللہ کو ہے ‘ وہی امر حق بیان کرتا ہے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے “۔

یہ ضرب اللہ کی جانب سے ہے ۔ اللہ نبی کریم ﷺ کو حکم دیتے ہیں کہ آپ کفار اور جھٹلانے والوں کے سامنے واضح الفاظ میں اس بات کا اعلان کردیں کہ آپ کے دل میں اپنے پیغام کے بارے میں پختہ یقین ہے اور آپ کو اس سلسلے میں مکمل یکسوئی حاصل ہے ۔ آپ کے شعور میں اس پیغام کی سچائی پر بین دلائل موجود ہیں اور آپ کی ذات میں اس امر کا گہرا وجدانی احساس موجود ہے کہ آپ ﷺ جو پیغام دے رہے ہیں وہ حق ہے ۔ یہ ایک ایسا شعور ہے ‘ جو تمام نبیوں کے اندر پوری طرح پایا جاتا ہے اور تمام نبیوں نے اس احساس و شعور اور وجدانی راہنمائی کا اظہار ایسے ہی الفاظ میں کیا ہے ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا :

(آیت) ” قال یقوم ارئیتم ان کنتم علی بینۃ من ربی واتنی رحمۃ من عندہ فعمیت علیکم انلزمکموھا وانتم لھا کرھون “۔ (11 : 28)

” نوح نے کہا اے بردران قوم ‘ ذرا سوچو تو سہی کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک کھلی شہادت پر قائم تھا ‘ اور پھر اس نے مجھ پر اپنی خاص رحمت سے بھی نواز دیا مگر وہ تم کو نظر نہ آئی تو آخر ہمارے پاس کیا ذریعہ ہے کہ تم ماننا چاہو اور ہم زبردستی اس کو تمہارے سر پر چپکا دیں ۔ “ اور حضرت صالح (علیہ السلام) نے کہا :

(آیت) ” (آیت) ” قال یقوم ارئیتم ان کنتم علی بینۃ من ربی واتنی رحمۃ فمن ینصرنی من اللہ ان عصیتہ فما تزیدوننی غیر تخسیر “۔ (11 : 63)

” صالح (علیہ السلام) نے کہا اے بردران قوم ‘ تم نے کچھ اس بات پر بھی غور کیا کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک کھلی شہادت پر قائم تھا ‘ اور پھر اس نے مجھ پر اپنی خاص رحمت سے بھی نواز دیا تو اس کے بعد اللہ کی پکڑ سے مجھے کون بچائے گا اگر میں اس کی نافرمانی کروں ؟ تم میرے کس کام آسکتے ہو ؟ سوائے اس کے کہ مجھے اور خسارہ میں ڈال دو ۔ “ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا :

(آیت) ” وَحَآجَّہُ قَوْمُہُ قَالَ أَتُحَاجُّونِّیْ فِیْ اللّہِ وَقَدْ ہَدَانِ (6 : 80)

” اس قوم اس سے جھگڑنے لگی تو اس نے قوم سے کہا : ” کیا تم لوگ اللہ کے معاملے میں مجھ سے جھگڑتے ہو حالانکہ اس نے مجھے راہ راست دکھا دی ہے ۔ “ اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے کہا :

(آیت) ” فلما ان جآء البشیر القہ علی وجھہ فارتد بصیرا قال الم اقل لکم انی اعلم من اللہ مالا تعلمون “۔ (12 : 96)

” پھر جب خوشخبری لانے والا آیا تو اس نے یوسف کا قمیص یعقوب کے منہ پر ڈال دیا اور یکایک اس کی بینائی عود کر آئی ۔ تب اس نے کہا ” میں تم سے کہتا نہ تھا ؟ میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ۔ “

یہ ہے حقیقت خدائی ‘ جو اللہ والوں کے دل میں روشن چراغ کی طرح نمایاں ہوتی ہے ۔ لیکن صرف ان لوگوں کے دلوں میں یہ چراغ روشن ہوتا ہے جن کے دلوں میں اللہ روشن کرنا چاہے ۔ ایسے لوگ اللہ کو اپنے دل میں موجود پاتے ہیں اور ان کی شخصیت کی گہرائیوں میں یہ حقیقت بیٹھ جاتی ہے اور ان کے دلوں کو یقین سے بھر دیتی ہے ۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کے بارے میں اللہ اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ وہ مشرکین کے سامنے اس کا اعلان ببانگ دہل کردیں ۔ مشرکین دراصل دعوت الی اللہ کی تکذیب کرنا چاہتے ہیں اور وہ حیلے بہانے بنا کر یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ اس حقیقت کو تسلیم کرانے کے لئے معجزات پیش کریں حالانکہ یہ حقیقت تو قلب رسول میں روشن چراغ کی طرح موجود ہے ۔

(آیت) ” قل انی علی بینۃ من ربی وکذبتم بہ “۔ (6 : 57)

” کہو میں اپنے رب کی طرف سے ایک دلیل روشن پر قائم ہوں اور تم نے اسے جھٹلا دیا ہے “۔ وہ ہمیشہ یہ مطالبہ کرتے رہتے تھے کہ یا تو ان پر کوئی خارق عادت معجزہ نازل ہوجائے یا ان پر عذاب الہی نازل ہوجائے تاکہ وہ اس بات کو تسلیم کرلیں ۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے حکم دیا جاتا تھا کہ اس سوال کے جواب میں آپ ان کے سامنے رسول اور رسالت کی حقیقت کا اعلان کریں اور رسول اور رسالت اور اللہ اور اس کی الوہیت وحاکمیت کے درمیان مکمل فرق بیان کریں ۔ نیز یہ بھی اعلان کردیں کہ جس عذاب اور معجزے کی آمد کے لئے وہ عجلت کا اظہار کر رہے ہیں اس کے صدور میں ان کو بالکل اختیارات نہیں ہیں ۔ یہ کام تو صرف اللہ کے دست قدرت میں ہے ۔ وہ تو الہ نہیں وہ تو فقط پیغام بر ہیں ۔

(آیت) ” ِ مَا عِندِیْ مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِہِ إِنِ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلّہِ یَقُصُّ الْحَقَّ وَہُوَ خَیْْرُ الْفَاصِلِیْنَ (57)

” میرے اختیار میں وہ چیز ہے نہیں جس کے لئے تم جلدی مچا رہے ہو ‘ فیصلے کا سارا اختیار اللہ کو ہے ‘ وہی امر حق بیان کرتا ہے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے “۔

کسی معجزے کا آنا اور اس کے بعد نہ ماننے کی صورت میں ان پر عذاب الہی کا نزول ایک ایسا معاملہ ہے جس کا تعلق اللہ کے فیصلے اور حکم سے ہے اور اس معاملے میں جج اور فیصلہ کرنے والا صرف اللہ ہی ہے ۔ اللہ ہی حق بیان کرنے والا ہے اور اطلاع دینے والا ہے ۔ اللہ ہی ہے جو کسی پیغمبر اور اس کی امت دعوت کے درمیان فیصلے کا اختیار رکھتا ہے ۔ کسی انسان کو اس باب میں کوئی اختیار اور حق مداخلت نہیں دیا گیا ہے ۔

اس طرح رسول اللہ ﷺ اعلان کردیتے ہیں کہ ایسا کوئی فیصلہ کرنے کا انہیں کوئی اختیار نہیں ہے اور نہ وہ قضا وقدر کے ان امور میں مداخلت کرسکتے ہیں ۔ یہ اللہ کے نظام الوہیت کے ساتھ مخصوص ہے اور خصائص الوہیت میں سے ہے جبکہ وہ خود ایک بشر ہیں ۔ ہاں امتیاز یہ ہے کہ ان کی طرف وحی آتی ہے ۔ ان کا فرض یہ ہے کہ وہ اسے لوگوں تک پہنچا دیں اور انہیں انجام بد سے ڈرائیں ۔ ان کا یہ منصب نہیں ہے کہ فیصلے کریں اور ان کے مطابق لوگوں کو سزا دیں ۔ جس طرح اللہ تعالیٰ حق بیان کرتا ہے اور ہمیں اس کی اطلاع دیتا ہے اسی طرح فیصلوں کا اختیار بھی اللہ کو ہے ۔ یہ وہ انداز ہے جس کے سوا ایک بشر اور ذات باری کے درمیان فرق و امتیاز کی کوئی اور سبیل نہیں ہے ۔

اس کے بعد حضرت کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ ان کے قلب ونظر سے اپیل کریں اور ان کی توجہ ان قوی دلائل واشارات کی طرف مبذول کرائیں جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ یہ پیغام اللہ کی جانب سے ہے اور اس کا فیصلہ بھی مشیت الہی پر موقوف ہے ۔ اگر معجزات کا صدور اور عذاب الہی کا نزول آپ کے قبضہ قدرت میں ہوتا تو تقاضائے انسانیت کے نتیجے میں آپ فورا ہی یہ چیلنج قبول کرلیتے اور اور اس معاملے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتے کیونکہ وہ تو اس امر کا بار بار باصرار مطالبہ کرتے تھے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ اللہ کے اختیار میں تھا اور اللہ وہ ذات ہے جو اپنے بندوں کے مقابلے میں نہایت ہی حلیم ہے ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ کوئی خارق عادت معجزہ نہیں صادر فرماتے کیونکہ اس کے بعد ان پر عذاب آتا ہے ۔ وہ تو تکذیب پر تلے ہوئے تھے اور یہ وہ بات ہے جو تاریخ میں اس سے قبل اقوام وملل کو پیش آتی رہی ہے ۔