وَلَا
تَطْرُدِ
الَّذِیْنَ
یَدْعُوْنَ
رَبَّهُمْ
بِالْغَدٰوةِ
وَالْعَشِیِّ
یُرِیْدُوْنَ
وَجْهَهٗ ؕ
مَا
عَلَیْكَ
مِنْ
حِسَابِهِمْ
مِّنْ
شَیْءٍ
وَّمَا
مِنْ
حِسَابِكَ
عَلَیْهِمْ
مِّنْ
شَیْءٍ
فَتَطْرُدَهُمْ
فَتَكُوْنَ
مِنَ
الظّٰلِمِیْنَ
۟
٣

(آیت) ” مَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْْہِم مِّن شَیْْء ٍ فَتَطْرُدَہُمْ فَتَکُونَ مِنَ الظَّالِمِیْنَ (52)

” ان کے حساب میں سے کسی چیز کا بار تم پر نہیں ہے اور تمہارے حساب میں سے کی چیز کا بار ان پر نہیں ۔ اس پر بھی اگر تم انہیں دور پھینکو گے تو ظالموں میں شمار ہو گے ۔

وہ خود اپنا بوجھ اٹھائیں گے اور حساب دیں گے اور تم اپنا بوجھ اٹھاؤ گے اور حساب دو گے ۔ یہ کہ وہ غریب ہیں تو ان کی قسمت میں یہ اللہ نے لکھا ہے ۔ اس میں تمہارا کوئی دخل نہیں ہے ۔ اسی طرح اے پیغمبر خود تمہاری امارت یا فقر کے بارے میں ان سے بھی نہ پوچھا جائے گا ۔ ایمان اور کفر کے معاملے میں امارت اور غربت کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔ اگر آپ کسی کو اپنی مجلس میں جگہ دیں یا طرح آپ ظالموں میں سے ہوں گے اور یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی رسول ظالموں میں سے ہوجائے ۔

وہ لوگ جو دل کے تونگر تھے اور جیب کے لحاظ سے غریب تھے ۔ وہ مجلس رسول کے مستقل ممبر رہے ۔ جو لوگ دنیاوی لحاظ سے کمزور تھے مگر ایمانی اور نظریاتی اعتبار سے طاقتور تھے وہ اسی مقام پر برقرار رہے جو ان کے ایمان نے ان کے لئے مقرر کردیا تھا ۔ اس مقام کے وہ اس لئے مستحق ہوگئے تھے کہ وہ صرف اللہ کو پکارتے تھے اور صرف اللہ کی رضا مندی کے طالب تھے ۔ یوں اسلامی اقدار نے اس طرح روایات کی شکل اختیار کی جس طرح اللہ تعالیٰ پسند فرماتے تھے ۔

اہل کبر و غرور تحریک اسلامی سے متنفر ہوگئے ، ان کا تاثر یہ تھا کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ہم میں سے ایسے لوگ اللہ کے فضل وکرم کے مالک بن جائیں ۔ یہ ٹٹ پونجئے ! اگر محمد کی برپا کی ہوئی تحریک اور آپ جو پیغام لے کر آئے ہیں اس میں کوئی بھلائی ہوتی تو اس کے قبول کرنے میں یہ لوگ ہم سے آگے نہ ہوتے ۔ اللہ ہمیں ان سے پہلے اس کی جانب راہنمائی فرماتا ۔ یہ کوئی معقول بات نظر نہیں آتی کہ اہل عرب میں سے اللہ تعالیٰ ان ضعفاء اور ناداروں کو اپنے فضل وکرم کے لئے منتخب فرمائیں جبکہ ہم صاحب جاہ و مرتبہ ہیں۔

نسب اور مال پر غرور کرنے والے ان لوگوں کو اللہ نے دراصل فتنے میں ڈال دیا تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے دین اسلام کو سمجھا ہی نہ تھا نیز یہ دین انسانیت کو جس نئی دنیا میں لے جانا چاہتا تھا اسے بھی یہ لوگ نہ سمجھ سکے تھے جس کے آفاق نہایت ہی وسیع تھے ۔ یہ دین انسانوں کو اس جدید دنیا میں نہایت ہی بلندیوں تک لے جانا چاہتا تھا ۔ اس جدید اسلامی دنیا کا علم اس وقت نہ عربوں کو تھا اور نہ دوسرے لوگوں کو تھا ۔ آج جو لوگ جمہوریت اور دوسرے ناموں سے ایک سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں وہ بھی اسلامی نظام کی دنیا سے بیخبر ہیں ۔

(آیت) ” وَکَذَلِکَ فَتَنَّا بَعْضَہُم بِبَعْضٍ لِّیَقُولواْ أَہَـؤُلاء مَنَّ اللّہُ عَلَیْْہِم مِّن بَیْْنِنَا (6 : 53)

” دراصل ہم نے اس طرح ان لوگوں میں سے بعض کو بعض کے ذریعے آزمائش میں ڈالا ہے ۔ تاکہ وہ انہیں دیکھ کر کہیں ” کیا یہ ہیں وہ لوگ جن پر ہمارے درمیان اللہ کا فضل وکرم ہوا ہے ؟ “

اس سوال کا جواب قرآن کریم یوں دیتا ہے یعنی طبقہ کبراء کے استفہام انکاری کو یوں رد کیا جاتا ہے ۔