وَاَنْذِرْ
بِهِ
الَّذِیْنَ
یَخَافُوْنَ
اَنْ
یُّحْشَرُوْۤا
اِلٰی
رَبِّهِمْ
لَیْسَ
لَهُمْ
مِّنْ
دُوْنِهٖ
وَلِیٌّ
وَّلَا
شَفِیْعٌ
لَّعَلَّهُمْ
یَتَّقُوْنَ
۟
٣

ابھی پچھلے رکوع میں ہم نے پڑھا : وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ الاَّ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ ج آیت 48 کہ تمام رسول تبشیر اور انذار کے لیے آتے رہے اور اسی سورت میں ہم یہ بھی پڑھ چکے ہیں کہ حضور ﷺ کی زبان مبارک سے کہلوایا گیا : وَاُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْم بَلَغَ ط آیت 19 یہ قرآن میری طرف وحی کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعے سے میں خبردار کروں تم لوگوں کو اور ان تمام لوگوں کو بھی جن تک یہ پہنچے۔ یہاں اب پھر قرآن کے ذریعے سے بِہٖ انذار کا حکم آرہا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کا کام انذار اور تبشیر ہے جسے آپ اس قرآن کے ذریعے سے سر انجام دیں۔آیت 51 وَاَنْذِرْ بِہِ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْ یُّحْشَرُوْٓا اِلٰی رَبِّہِمْ جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے ‘ مشرکین مکہ میں بہت کم لوگ تھے جو بعث بعد الموت کے منکر تھے۔ ان میں زیادہ تر لوگوں کا عقیدہ یہی تھا کہ مرنے کے بعد ہم اٹھائے جائیں گے ‘ قیامت آئے گی اور اللہ کے حضور پیشی ہوگی ‘ لیکن اپنے باطل معبودوں کے بارے میں ان کا گمان تھا کہ وہ وہاں ہمارے چھڑانے کے لیے موجود ہوں گے اور ہمیں بچا لیں گے۔لَیْسَ لَہُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ وَلِیٌّ وَّلاَ شَفِیْعٌ لَّعَلَّہُمْ یَتَّقُوْنَ ان کو خبردار کردیں کہ اپنے باطل معبودوں اور ان کی شفاعت کے سہارے کے بارے میں اپنی غلط فہمیوں کو دور کرلیں۔ شاید کہ حقیقت حال کا ادراک ہونے کے بعد ان کے دلوں میں کچھ خوف خدا پیدا ہوجائے۔