وَلَقَدْ
اَرْسَلْنَاۤ
اِلٰۤی
اُمَمٍ
مِّنْ
قَبْلِكَ
فَاَخَذْنٰهُمْ
بِالْبَاْسَآءِ
وَالضَّرَّآءِ
لَعَلَّهُمْ
یَتَضَرَّعُوْنَ
۟
٣

آیت 42 وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلآی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَاَخَذْنٰہُمْ بالْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ لَعَلَّہُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ یہاں رسولوں کے بارے میں ایک اہم قانون بیان ہو رہا ہے واضح رہے کہ یہاں انبیاء نہیں بلکہ رسول مراد ہیں۔ جب بھی کسی قوم کی طرف کوئی رسول بھیجا جاتا تھا تو اس قوم کو خواب غفلت سے جگانے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے چھوٹے چھوٹے عذاب آتے تھے ‘ لیکن اگر وہ قوم اس کے باوجود بھی نہ سنبھلتی اور اپنے رسول پر ایمان نہ لاتی ‘ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی رسّی ڈھیلی کردی جاتی تھی ‘ تاکہ جو چند دن کی مہلت ہے اس میں وہ خوب دل کھول کر من مانیاں کرلیں۔ پھر اچانک اللہ کا بڑا عذاب ان کو آ پکڑتا تھا جس سے وہ قوم نیست و نابود کردی جاتی تھی۔ یہ مضمون اصل میں سورة الاعراف کا عمود ہے اور وہاں بڑی تفصیل سے بیان ہوا ہے۔