أنت تقرأ التفسير لمجموعة الآيات 28:62 إلى 28:67
وَیَوْمَ
یُنَادِیْهِمْ
فَیَقُوْلُ
اَیْنَ
شُرَكَآءِیَ
الَّذِیْنَ
كُنْتُمْ
تَزْعُمُوْنَ
۟
قَالَ
الَّذِیْنَ
حَقَّ
عَلَیْهِمُ
الْقَوْلُ
رَبَّنَا
هٰۤؤُلَآءِ
الَّذِیْنَ
اَغْوَیْنَا ۚ
اَغْوَیْنٰهُمْ
كَمَا
غَوَیْنَا ۚ
تَبَرَّاْنَاۤ
اِلَیْكَ ؗ
مَا
كَانُوْۤا
اِیَّانَا
یَعْبُدُوْنَ
۟
وَقِیْلَ
ادْعُوْا
شُرَكَآءَكُمْ
فَدَعَوْهُمْ
فَلَمْ
یَسْتَجِیْبُوْا
لَهُمْ
وَرَاَوُا
الْعَذَابَ ۚ
لَوْ
اَنَّهُمْ
كَانُوْا
یَهْتَدُوْنَ
۟
وَیَوْمَ
یُنَادِیْهِمْ
فَیَقُوْلُ
مَاذَاۤ
اَجَبْتُمُ
الْمُرْسَلِیْنَ
۟
فَعَمِیَتْ
عَلَیْهِمُ
الْاَنْۢبَآءُ
یَوْمَىِٕذٍ
فَهُمْ
لَا
یَتَسَآءَلُوْنَ
۟
فَاَمَّا
مَنْ
تَابَ
وَاٰمَنَ
وَعَمِلَ
صَالِحًا
فَعَسٰۤی
اَنْ
یَّكُوْنَ
مِنَ
الْمُفْلِحِیْنَ
۟
٣

اب قیامت کے مناظر جس میں ان لوگوں سے یوں سوال و جواب ہوگا اور اس سے اندازہ ہوگا کہ وہاں ان کی حالت زار کیسی ہوگی ۔

ویوم ینادھم فیقول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان یکون من المفلحین (62 – 67)

پہلاسوال تو سرزنش کے لیے ہوگا اور اس سے محض ان کو شر مندہ کرنا مطلوب ہوگا۔

این شرکاءی الذین کنتم تزعمون (28: 62) ” کہاں ہیں وہ شریک جن کا تم گمان رکھتے تھے “۔ اللہ کو اچھی طرح معلوم ہوگا کہ اس دن اس قسم کے کسی شریک کا وجود نہ ہوگا ۔ اور اس دن ان کے متبعین کو بھی کچھ پتہ نہ ہوگا کہ ان شرکاء کا کوئی وجود ہے یا نہیں ۔ نہ یہ لوگ ان شرکاء تک پہنچ سکیں گے ۔ یہ سوال دراصل ان لوگوں کو مجمع عام میں شرمندہ کرنے اور سرزنش کرنے کے لیے کیا جائے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ جن کے متعلق یہ سوال کیا گیا وہ یہاں جواب نہیں دیتے کیونکہ یہ سوال جواب طلب ہی نہیں ہے بلکہ وہ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ ان کے جو متبعین گمراہ ہوئے اور ان کی پیروی اختیار کی ان کے اس جرم سے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیں ۔ جیسا کہ کبراء قریش لوگوں کو گمراہی پر آمادہ کرتے تھے اور ان کو اللہ کی راہ سے روکتے تھے ۔ اسلیے ان کا جواب یوں ہوگا

ربنا ھولاء الذین ۔۔۔۔۔۔۔ یعبدون (28: 63) ” اے ہمارے رب ، بیشک یہی لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہ کیا تھا ۔ انہیں ہم نے اسی طرح گمراہ کیا جس طرح ہم خود گمراہ ہوئے ۔ ہم آپ کے سامنے برات اظہار کرتے ہیں ۔ یہ ہماری کوئی بندگی نہ کرتے تھے “۔ ہمارے رب ہم نے ان کو زبر دستی گمراہ نہیں کیا ۔ ان کے دل دماغ پر ہمیں کوئی کنٹر ول حاصل نہ تھا ۔ یہ لوگ اپنی مرضی اور آزادانہ اختیار سے گمراہی میں پڑے جیسا کہ ہم خود بغیر کسی مجبوری کے گمراہی میں پڑے ۔

تبرانا الیک (28: 63) ” ہم آپ کے سامنے برات اظہار کرتے ہیں “ کہ ہم نے ان کو گمراہ کیا ہے ۔

ما کانوا ایانا یعبدون (28: 63) ” یہ ہماری بندگی تو نہ کرتے تھے “۔ بلکہ یہ بتوں ، آستانوں اور دوسری مخلوقات کی بندگی کرتے تھے۔ ہم نے ان سے یہ نہ کہا تھا کہ ہم تمہارے الٰہ ہیں ، اور نہ وہ وہاں ہماری عبادت کرتے تھے۔

اب ان کو اس مقام شرمندگی کی طرف لایا جا رہا ہے جس کی طرف وہ بات کا رخ کرنا نہیں چاہتے جس سے وہ بات کر پھیر کر دوسری طرف لے جانا چاہتے ہیں یعنی وہ شرکاء جو ان لوگوں کو اللہ کے سوا پکڑے ہوئے تھے۔

وقیل ادعوا شرکآء کم (28: 64) ” پھر کہا جائے گا کہ پکارو ، ان ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو “۔

یعنی ان کو پکارو ، اور ان کی سیرت سے بہ بھاگو ، ان کو پکارو کہ وہ اب تمہیں تمہاری پکار کو پہنچیں۔ تمہیں اس مصیبت سے چھڑائیں ، ان کو پکارو کہ آج دن ہے ان کے کام کرنے کا۔ یہی تو ان کا فائدہ تھا۔ یہ بدبخت لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان شرکاء کو آج پکارنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ، لیکن بامر مجبوری وہ احکام الہیہ کو بچا لائیں گے۔

فدعوھم فلم یستجیبو الھم (28: 64) ” یہ انہیں پکاریں گے مگر وہ ان کو کوئی جواب نہ دیں گے “۔ ان شرکاء سے یہی توقع تھی کہ وہ کوئی جواب نہ دیں گے۔ البتہ آواز اس لیے دلوائی جائے گی تاکہ یہ پکارنے والے اچھی اطرح ذلیل ہوں۔

ورآوا العذاب (28: 64) ” اور یہ لوگ عذاب دیکھ لیں گے “۔ یعنی اس بحث و مباحثے کے درمیان ہی عذاب دیکھ لیں گے۔ یہ اس عذاب ہی کی طرف بڑھ رہے ہوں گے اور عذاب ان کو نظر آجائے گا۔ اس ذلیل کرنے والے منظر کے بعد پھر اسی عذاب کا منظر ہوگا۔

یہ شرمسار کنندہ منظر جب اپنی انتہاؤں پر ہوتا ہے تو اچانک ان پر وہ ہدایت پیش کردی جاتی ہے کہ کاش تم اسے قبول کرلیتے۔ اس برے حال میں یہ لوگ یہی آرزو کرتے ہوں گے کہ اے کاش کہ وہ ایسا کرتے ، دنیا میں تو یہ ہدایت ان کے دسترس میں تھی اور اگر وہ لبیک کہہ کر اسے قبول کرلیتے تو آج یہ حالت نہ ہوتی۔

لو انھم کانوا یھتدون (28: 64) ” کاش وہ ہدایت اختیار کرنے والے ہوتے “۔ اب سیاق کلام انہیں اس کربناک منظر کی طرف لے جاتا ہے۔

ویوم ینادھم فیقول ماذا اجبتم المرسلین (28: 65) ” اور وہ دن جب وہ ان کو پکارے گا اور پوچھے گا کہ جو رسول بھیجے گئے تھے انہیں تم نے کیا جواب دیا تھا ؟ “ اور اللہ کو تو خوب معلوم ہے کہ انہوں نے رسولوں کو کیا جواب دیا تھا۔ لیکن یہ باز پرس محض ذلیل اور شرمسار کرنے کیلئے ہوگا۔ اس سوال کے جواب میں وہ خاموش ہوں گے بلکہ مدہوش کھڑے ہوں گے۔ اس لیے کہ وہ سخت کرب میں مبتلا ہوں گے اور ان کو سمجھ میں نہ آ رہا ہوگا کہ وہ کیا جواب دیں۔

فعمیت علیھم ۔۔۔۔۔ لا یتسائلون (28: 66) ” اس وقت کوئی جواب ان کو نہ سوجھے گا اور نہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھ سکیں گے “۔ انداز گفتگو اس منظر میں لوگوں کی ایسی تصویر کھینچتا ہے کہ گویا وہ اندھے ہیں۔ گویا ” خبریں “ اندھی ہوگئی ہیں اور وہ ان تک پہنچ نہیں پاتیں۔ جس طرح اندھا آدمی کسی جگہ نہیں پہنچ جاتا۔ وہ کچھ نہیں جانتے۔ نہ پوچھ سکتے ہیں ، نہ جواب دے سکتے ہیں۔ مدہوشی کی سی حالت میں کھڑے ہیں۔

فاما من تاب ۔۔۔۔۔ من المفلحین (28: 67) ” البتہ جس نے آج توبہ کرلی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیے وہی یہ توقع کرسکتا ہے کہ وہاں فلاح پانے والوں میں سے ہوگا ؟ “ یہ صفحہ بالمقابل ہے ۔ جب غم اور تکلیف مشرکین کے لیے عروج پر ہوگی ، اس وقت توبہ کرنے والوں ، ایمان لانے والوں اور عمل کرنے والوں کے لئے ایسی فلاح ہوگی۔ اس لیے اے لوگو ! یہ موقع ہے اس سے فائدہ اٹھاؤ، ابھی تمہارے سامنے کھلا وقت ہے ، بہتر ہے کہ اسے اختیار کرلو۔