أنت تقرأ التفسير لمجموعة الآيات 28:57 إلى 28:61
وَقَالُوْۤا
اِنْ
نَّتَّبِعِ
الْهُدٰی
مَعَكَ
نُتَخَطَّفْ
مِنْ
اَرْضِنَا ؕ
اَوَلَمْ
نُمَكِّنْ
لَّهُمْ
حَرَمًا
اٰمِنًا
یُّجْبٰۤی
اِلَیْهِ
ثَمَرٰتُ
كُلِّ
شَیْءٍ
رِّزْقًا
مِّنْ
لَّدُنَّا
وَلٰكِنَّ
اَكْثَرَهُمْ
لَا
یَعْلَمُوْنَ
۟
وَكَمْ
اَهْلَكْنَا
مِنْ
قَرْیَةٍ
بَطِرَتْ
مَعِیْشَتَهَا ۚ
فَتِلْكَ
مَسٰكِنُهُمْ
لَمْ
تُسْكَنْ
مِّنْ
بَعْدِهِمْ
اِلَّا
قَلِیْلًا ؕ
وَكُنَّا
نَحْنُ
الْوٰرِثِیْنَ
۟
وَمَا
كَانَ
رَبُّكَ
مُهْلِكَ
الْقُرٰی
حَتّٰی
یَبْعَثَ
فِیْۤ
اُمِّهَا
رَسُوْلًا
یَّتْلُوْا
عَلَیْهِمْ
اٰیٰتِنَا ۚ
وَمَا
كُنَّا
مُهْلِكِی
الْقُرٰۤی
اِلَّا
وَاَهْلُهَا
ظٰلِمُوْنَ
۟
وَمَاۤ
اُوْتِیْتُمْ
مِّنْ
شَیْءٍ
فَمَتَاعُ
الْحَیٰوةِ
الدُّنْیَا
وَزِیْنَتُهَا ۚ
وَمَا
عِنْدَ
اللّٰهِ
خَیْرٌ
وَّاَبْقٰی ؕ
اَفَلَا
تَعْقِلُوْنَ
۟۠
اَفَمَنْ
وَّعَدْنٰهُ
وَعْدًا
حَسَنًا
فَهُوَ
لَاقِیْهِ
كَمَنْ
مَّتَّعْنٰهُ
مَتَاعَ
الْحَیٰوةِ
الدُّنْیَا
ثُمَّ
هُوَ
یَوْمَ
الْقِیٰمَةِ
مِنَ
الْمُحْضَرِیْنَ
۟
٣

یہ اہل مکہ کا ایک سطحی اور دنیاوی نقطہ نظر تھا۔ قریش کو اسی دنیا پرستی کے نقطہ نظر نے ڈر میں مبتلا کردیا تھا کہ اگر ہم نے اس جدید تحریک کو قبول کیا تو نقصان ہوگا۔ دشمن حملہ آور ہوجائیں گے اور معاون و مددگار حمایت سے ہاتھ اٹھالیں گے اور ہم مالی لحاظ سے کمزور اور بدحال ہوجائیں گے۔

وقالوا ان نتبع ۔۔۔۔۔ من ارضنا (28: 57) ” وہ کہتے ہیں اگر ہم تمہارے ساتھ اس ہدایت کی پیروی اختیار کرلیں تو اپنی زمین سے اچک لیے جائیں گے “۔ یہ لوگ اس بات کے منکر نہیں تھے کہ حضرت پیغمبر ﷺ جو تعلیمات پیش کرتے ہیں وہ حقیقی راہ ہدایت ہے۔ لیکن انہیں ڈر یہ تھا کہ مکہ کے اردگرد کے لوگ ان پر ٹوٹ پڑیں گے دراصل ان کی نظروں میں صرف دنیا کی قوت ہی تھی۔ ذات باری اور اللہ وحدہ کی قوت کو انہوں نے بھلا دیا تھا۔ حالانکہ حقیقی محافظ تو اللہ ہے۔ حقیقی بچانے والا تو وہی ہے۔ اگر وہ اللہ کی حمایت میں آجاتے ہیں تو پوری کائنات کی قوتیں ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتیں۔ اور اگر اللہ ان کو ذلیل و خوار کرنا چاہے تو دنیا کی پوری قوتیں بھی ان کی کچھ مدد نہیں کرسکتیں۔ ان کا یہ نقطہ نظر اس لیے تھا کہ ایمان ان کے دلوں کی تہہ تک ابھی نہ اترا تھا۔ اگر اترا ہوتا تو حقیقی قوت کے بارے میں ان کا نقطہ نظر یہ نہ ہوتا۔ وہ معاملات کا اندازہ یوں نہ کرتے۔ اور ان کو یہ یقین ہوجاتا کہ امن تو اللہ کے جوار رحمت میں ہے اور خوف اور خطرات تو اللہ سے دوری کی راہ میں ہیں اور یہ کہ تحریک اسلامی میں شامل ہونا دراصل قوت اور عزت سے وابستہ ہونا ہے۔ اور یہ کہ اللہ کا حقیقی سرچشمہ قوت ہونا محض طفل تسلی نہیں ہے ، نہ کوئی وہم ہے۔ بلکہ ایک سائنٹیفک حقیقت ہے ، اس لیے کہ اللہ کا اتباع کرنا دراصل اس کائنات کے قانون قدرت کا اتباع ہے۔ اس طرح انسان اور کائنات کی قوتوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ یوں انسان کی پشت پر پوری تکوینی قوتیں جمع ہوجاتی ہیں۔ اس لیے کہ اس کائنات کا خالق اور مدبر بھی اللہ ہے اور اسلامی دین کا بھیجنے والا بھی وہی ہے اور جو شخص اللہ کی ہدایت پر چلتا ہے وہ اللہ کی تمام قوتوں کو کام میں لاتا ہے اور اس کائنات کی قوتیں لا محدود ہیں۔ ایسا شخص گویا ایک عظیم سرچشمہ قوت ہے مربوط ہوجاتا اور اس کا وارث بن جاتا ہے۔ اور یہ ہے ایک تاریخی حقیقت اور پوری زندگی کے تجربوں سے ثابت شدہ حقیقت۔

اللہ کی ہدایات ہی زندگی کا صحیح منہاج ہیں۔ ان کے مطابق زندگی گزارنا ہی اس کرہ ارض کی حقیقی زندگی ہے اور جب دنیا میں اسلامی نظام اور اسلامی منہاج حیات رائج اور قائم ہوجاتا ہے تو اس کے نتیجے میں اخروی فلاح اور دنیا میں شوکت نصیب ہوتی ہے۔ اور اس نظام کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں دنیا اور آخرت کے درمیان کوئی دوئی نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ فلاح اخری تب ہی حاصل ہو سکتی ہے کہ اس دنیا کے نظام کو معطل کردیا جائے یا اسے پس پردہ ڈال دیا جائے۔ اسلامی منہاج حیات میں دنیا آخرت دونوں باہم مربوط اور باندھے ہوئے ہیں۔ اسلام کیا ہے ، دل مومن کی اصلاح ، انسانی سوسائٹی کی اصلاح اور اس کرہ ارض پر اجتماعی نظام کی اصلاح۔ یہی وجہ ہے کہ اس سوچ کے مطابق دنیا آخرت کے جہاں میں داخل ہونے کا راستہ ہے۔ یہ دنیا آخرت کے لئے مزرعہ ہے ، کھیت ہے۔ اس دنیا میں جنت کی تعمیر ہی دراصل وسیلہ ہے آخرت میں تعمیر جنت کا ، اور اس میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہنے کا بشرطیکہ یہ کام اسلامی ہدایت اور اسلامی شریعت کے مطابق کیا جائے اور دنیا کی تمام تعمیر میں رضائے الٰہی مطلوب ہو۔

انسانی تاریخ کا تجزیہ شاہد ہے کہ جب بھی کسی جماعت نے اللہ کی ہدایت کا جھنڈا اٹھایا ہے ، اللہ نے اسے قوت ، شوکت اور دنیا کی قیادت دی ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ یہ جماعت اپنے آپ کو اس امانت کے اٹھانے کیلئے تیار کرے ، اس کی اہل ہوجائے اور جان لو کہ یہ امانت ، امانت خلافت ارضی ہے۔ یعنی اس دنیا میں تمام قوتوں پر کنڑول اور زندگی کے نشیب و فراز پر کنڑول۔

اکثر لوگ اتباع شریعت اور اللہ کی ہدایت پر چلنے سے بہت ڈرتے ہیں۔ یہ لوگ اللہ کے دشمنوں کی عداوت اور ان کی مکاریوں سے ڈرتے ہیں۔ یہ لوگ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اللہ کے دشمن ان پر ٹوٹ پڑیں گے۔ یہ لوگ اقتصادی تکالیف اور اقتصادی پابندیوں سے بھی ڈرتے ہیں۔ یہ اسی قسم کے اوہام ہیں جس طرح قریش کو یہ اوہام لاحق تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا

ان نتبع ۔۔۔۔۔ من ارضنا (28: 57) ” اگر ہم آپ کے ساتھ ہدایت کی پیروی کریں تو اپنی زمین سے اچک لیے جائیں گے “۔ لیکن جب انہوں نے اس ہدایت کو سینے سے لگا لیا تو وہ مشرق و مغرب پر قابض ہوگئے اور یہ قبضہ صرف 25 سال کے عرصے میں مکمل ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس عذر لنگ کی اسی وقت تردید کردی تھی کہ وہ کون ہے جس نے ان کو مکہ میں امن عطا کیا ہے۔ وہ کون ہے جس نے ان کے لیے مکہ کو بیت الحرام قرار دیا۔ وہ کون ہے جو تمام دنیا کے لوگوں کے دل مکہ کی طرف مائل کرتا ہے اور وہ دنیا کے تمام ثمرات لے کر وہاں حاضر ہوتے ہیں۔ تمام دنیا سے جمع ہوکر حرم میں آتے ہیں حالانکہ ان کے ملک مختلف ہیں اور ان کی عیدیں مختلف ہیں۔

اولم نمکن لھم ۔۔۔۔۔۔ من لدنا ” کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے ایک پر امن حرم کو ان کیلئے جائے قیام بنایا جس کی طرف ہر قدم کے ثمرات کھچے چلے آتے ہیں ، ہماری طرف سے رزق کے طور پر “۔ پھر وہ کیوں ڈرتے ہیں کہ لوگ ان کو اچک لیں گے۔ اگر انہوں نے اللہ کی ہدایت کو قبول کرلیا۔ حالانکہ اس حرم کو جائے امن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وقت سے اللہ ہی نے تو بنایا تھا۔ سوال یہ ہے کہ نافرمان ہونے کے باوجود ان لوگوں کو کس نے یہ پرامن ماحول دیا ہے ؟ اور اگر وہ فرمان بردار ہوجائیں تو اللہ ان کے لوگوں کے حوالے کر دے گا کہ ان کی زمین سے وہ ان کو اچک کرلے جائیں۔ یہ کس طرح معقول ہو سکتا ہے ؟

ولکن اکثرھم لا یعلمون (28: 58) ” مگر ان میں سے اکثر لوگ مانتے نہیں “۔ وہ نہیں جانتے کہ امن کہاں سے ملتا ہے اور خوف کہاں سے ملتا ہے۔ ان کو معلوم نہیں ہے کہ دراصل تمام امو راللہ کے ہاتھ میں ہیں۔

اگر وہ بدامنی اور خوف سے بچنا چاہتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ وہ ہلاکت اور بربادی سے دو چار ہوں تو بربادی کے اسباب یہ ہیں۔ ان کو چاہئے کہ وہ ان سے بچیں۔

وکم اھلکنا من قریۃ ۔۔۔۔۔۔ الوارثین (28: 58) ” اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہم تباہ کرچکے ہیں جن کے لوگ اپنی معیشت پر اترا گئے تھے۔ سو دیکھ لو ، وہ ان کے مسکن پڑے ہوئے ہیں جن میں ان کے بعد کم ہی کوئی بسا ہے ، آخر کار ہم ہی وارث ہو کر رہے “۔ انعامات خداوندی پر اترانا ، اور ان کا شکر ادا نہ کرنا دراصل بستیوں کی ہلاکت کا حقیقی سبب رہا ہے۔ اہل قریش کو بھی شکر ادا کریں ورنہ ان کی ہلاکت بھی یقینی ہوگی جیسا کہ ان بستیوں پر اللہ کی ہلاکت آئی جن کے بارے میں خوب جانتے ہیں۔ اور اہل قریش رات دن ان بستیوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ برباد پڑی ہیں اور اس بربادی کے بعد کوئی بھی آکر ان میں بسا تک نہیں۔ ان کے کھنڈرات موجود ہیں۔

لم تسکن من بعدھم الا قلیلا (28: 58) ” جن میں ان کے بعد کم ہی کوئی بسا ہے “۔ یہ بستیاں صاف صاف نظر آتی ہیں اور اپنے باسیوں کی کہانی سنا رہی ہیں۔ اور یہ کہانی سنا رہی ہیں کہ اللہ کے انعامات پر یعنی محض معاشی ترقی پر اترانے کا انجام کیا ہوتا ہے۔ ان کے باشندے اس طرح فنا ہوئے کہ کوئی بھی پیچھے نہ رہا۔ کوئی ان کا وارث نہ ہوا۔

وکنا نحن الوارثین (28: 58) ” آخر کار ہم ہی وارث ہو کر رہے “۔ لیکن ان کے اس اترانے اور سرکشی کے باوجود اللہ نے ان کو تب ہلاک کیا جب ان بستیوں کے مرکزی مقامات پر رسول بھیجے ، کیونکہ یہ اللہ کی سنت ہے اور اس سنت کو اللہ نے انسانوں پر مہربانی کرتے ہوئے اپنے اوپر لازم کردیا ہے۔

وما کان ربک ۔۔۔۔۔ الا واھلھا ظلمون (59:28) ” اور تیرا رب بستیوں کو ہلاک کرنے والا نہ تھا جب تک کہ ان کے مرکز میں ایک رسول نہ بھیج دیتا جو ان کو ہماری آیات نہ سناتا اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے رہنے والے ظالم نہ ہوجاتے “۔ رسولوں کو بستیوں کے مرکزی مقامات میں اس لیے بھیجا گیا کہ یہ مرکزی مقامات مراکز تبلیغ ہوں اور ان سے پیغام الٰہی اطراف واکناف میں نشر ہو ، تاکہ کوئی یہ کہہ نہ سکے ان تک تو پیغام نہیں پہنچا۔ رسول اللہ ﷺ کو مکہ میں بھیجا گیا کیونکہ یہ عربوں کا ام القریٰ تھا۔ اور آپ کا فریضہتھا کہ آپ اردگرد کے تمام لوگوں کو ان اقوام کے انجام سے خبردار کریں جن کے پاس رسول آئے اور انہوں نے نہ مانا اور ظلم کیا ۔

وما کنا مھل کی ۔۔۔۔ الا واھلھا ظلمون (58:28) ” ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے رہنے والے ظالم نہ ہوجاتے تھے “۔ وہ اللہ کی آیات کی تکذیب کرتے تھے حا لان کہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ حق ہیں۔

نیز یہ کہ زندگی کا پوراپورا سامان اور دنیا کی پوری دولت اور متاع ، اور وہ تمام خزانے جو زمین کے اندر ودیعت ہیں اور وہ پیداواریں تو انسانوں کو اس کرئہ ارض پر دی گئیں ۔ اور وہ تمام چیزیں جو تمام انسانوں کے لیے اس جہاں میں پیدا ہوتی ہیں ۔ یہ سب چیزیں اللہ کے ہاں جنتوں میں تیار کردہ سازوسامان کے مقابلے میں ایک حقیر چیز ہیں ۔

وما اوتیتم من ۔۔۔۔۔ افلا تعلمون (60:28) ” تم لوگوں کو جو کچھ بھی دیا گیا ، وہ محض دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور اس کی زینت ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے ، وہ اس سے بہتر اور باقی تر ہے ۔ کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے “۔ یہ آخری حساب ہے ۔ صرف اس سا زو سامان کا نہیں جس کے فوت ہونے کا انہیں ڈر لاحق تھا۔ یعنی سامان زیست ، امن اور زمین کا۔ یہ حساب صرف اقتدار ، ہر قسم کی پیداواروں اور امن وامان ہی کا نہیں جس کا احسان اللہ نے ان کو جتوایا ، صرف ان بستیوں کا حساب نہیں جنہیں اللہ نے ہلاک کیا ، محض اس لیے کہ وہ اپنی معیشت پر اترا رہی تھیں ، بلکہ یہ حساب ہے اس تمام سامان زندگی کا جس کا تعلق اس دنیا سے ہے۔ دنیا کا پورا سازو سامان ، مکمل سازوسامان اور دائمہ سازوسامان جس کے بعد کوئی ہلاکت اور بربادی بھی نہ ہو اور اس سے پوری طرح اور مکمل طور پر استفادہ بھی کیا گیا ہو ، یہ سب سازوسامان اللہ کے ہاں پائے جانے والے اور ہمیشہ باقی رہنے والے متاع کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے وہ خیر ہے یعنی اپنی حقیقت کے اعتبار سے اور باقی رہنے والا ہے یعنی مدت کے اعتبار سے۔

افلا تعقلون (28: 60) ” کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے “۔ یعنی اس دنیا وہ سازوسامان اور اخروی سازوسامان کے درمیان فرق وہی شخص کرسکتا ہے جو دنیا و آخرت کی حقیقت کو سمجھتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ یہ آخری تعقیب نہایت ہی ایسے الفاظ میں آتی ہے جن میں عقل سے کام نہ لینے پر سرزنش کی گئی ہے کیونکہ عقل سے کام لینا ہر شخص کے اختیار میں ہے۔ آخر میں دنیا اور آخرت دونوں کا تقابل پیش کیا جاتا ہے اور لوگوں کو اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ ان میں سے اپنے لیے جسے چاہیں پسند کرلیں۔

افمن وعدنہ وعدا ۔۔۔۔۔۔ من المحضرین (28: 61) ” بھلا وہ شخص جس سے ہم نے اچھا وعدہ کیا ہو اور وہ اسے پانے والا ہو ، کبھی اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جسے ہم نے صرف حیات دنیا کا سروسامان دے دیا ہو اور پھر وہ قیامت کے روز سزا کے لیے پیش کیا جانے والا ہو ؟ “۔

ایک طرف وہ شخص ہے جس کے ساتھ اچھا وعدہ ہے اور وہ اسے قیامت کے دن پانے والا ہے اور دوسرا شخص وہ ہے جسے

دنیا کا سازوسامان دیا گیا ہے اور وہ یہ مختصر زندگی میں اس حقیر سامان کو برت لیتا ہے۔ اور پھر اسے قیامت کے دن زبردستی حساب کے لیے لایا جاتا ہے۔ اس کے لیے ” مضرقین “ کا لفظ استعمال ہوا ہے یعنی گرفتار کرکے حاضر کیا جاتا ہے۔ اور ایسے لوگوں کی وہاں خواہش یہ ہوگی کہ ان کو حساب کے لیے نہ لایا جائے کیونکہ حساب کے بعد تو ان کے لیے عذاب حاضر ہے۔

وہ کہتے تھے کہ اگر ہم تمہارے ساتھ ایمان لے آئیں تو ہمیں اپنی زمین سے اچک لیاجائے گا اور اب ان کو اس طرح جواب دیا جاتا ہے کہ اگر تمہیں اچک بھی لیا جائے اور تم دنیا کے تمام سازہ سامان سے محروم بھی کردیئے جاؤ تو بھی یہ گھاٹا نہ ہوگا ، کیونکہ یہ محرومیت اس مصیبت سے ہلکی ہے کہ تمہیں گرفتار کرکے لایا جائے لیکن ایسی صورت بھی نہ ہوگی کیونکہ حضور اکرم ؐ کے متبعین تو دنیا بھی امن اور اقتدار اعلیٰ کے مالک رہیں گے اور آخرت میں تو ان کو بہت بڑی عطا اور بڑا امن وامان ہوگا ۔ لہٰذا اللہ کی ہدایت سے منہ وہی لوگ موڑتے ہیں جو بہت ہی غافل اور احمق ہیں ۔ اور وہ عقل کو کام میں لاکر اس کائنات کی حقیقت کو سمجھنے کی سعی نہیں کرتے ۔ ایسے لوگوں کو یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ خوف کا سبب کیا ہے اور امن کا سر چشمہ کیا ہے ۔ اور یہی لوگ بڑے خسارے والے ہیں جو اپنی قوت اختیار کو اچھی طرح استعمال نہیں کرتے اور اپنے آپ کو دائمی ہلاکت سے نہیں بچاتے ۔