لَقَدْ
اَنْزَلْنَاۤ
اِلَیْكُمْ
كِتٰبًا
فِیْهِ
ذِكْرُكُمْ ؕ
اَفَلَا
تَعْقِلُوْنَ
۟۠
٣

آیت 10 لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ کِتٰبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ”یہاں ”ذِکْرُکُمْ“ کے دو ترجمے ہوسکتے ہیں ‘ ایک تو یہ کہ اس میں تمہارے حصے کی نصیحت اور تعلیم ہے یعنی ذکرٌ لکم اور دوسرا یہ کہ ”اس میں تمہارا اپنا ذکر بھی موجود ہے“۔ اس دوسرے مفہوم کی وضاحت ایک حدیث سے ملتی ہے ‘ جس کے راوی حضرت علی رض ہیں۔ آپ رض فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : أَلَا اِنَّھَا سَتَکُوْنُ فِتْنَۃٌ ”آگاہ ہوجاؤ ! عنقریب ایک بہت بڑا فتنہ رونما ہوگا“ فَقُلْتُ : مَا الْمَخْرَجُ مِنْھَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ ”تو میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ﷺ اس سے نکلنے کا راستہ کون سا ہوگا ؟“ یعنی اس فتنے سے بچنے کی سبیل کیا ہوگی ؟“ آپ ﷺ نے فرمایا : کِتَاب اللّٰہِ ، فِیْہِ نَبَأُ مَا کَانَ قَبْلَکُمْ وَخَبَرُ مَا بَعْدَکُمْ وَحُکْمُ مَا بَیْنَکُمْ 1 ”للہ کی کتاب ! اس میں تم سے پہلے لوگوں کی خبریں بھی ہیں ‘ تمہارے بعد آنے والوں کے احوال بھی ہیں اور تمہارے باہمی مسائل و اختلافات کا حل بھی ہے“۔ ان معانی میں یہاں ذِکْرُکُمْ سے مراد یہی ہے کہ تمہارے ہر دور کے تمام مسائل کا حل اس کتاب کے اندر موجود ہے۔ میں اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ آج بھی ہمیں ہر قسم کی صورت حال میں قرآن مجید سے راہنمائی مل سکتی ہے۔