فَبَدَاَ
بِاَوْعِیَتِهِمْ
قَبْلَ
وِعَآءِ
اَخِیْهِ
ثُمَّ
اسْتَخْرَجَهَا
مِنْ
وِّعَآءِ
اَخِیْهِ ؕ
كَذٰلِكَ
كِدْنَا
لِیُوْسُفَ ؕ
مَا
كَانَ
لِیَاْخُذَ
اَخَاهُ
فِیْ
دِیْنِ
الْمَلِكِ
اِلَّاۤ
اَنْ
یَّشَآءَ
اللّٰهُ ؕ
نَرْفَعُ
دَرَجٰتٍ
مَّنْ
نَّشَآءُ ؕ
وَفَوْقَ
كُلِّ
ذِیْ
عِلْمٍ
عَلِیْمٌ
۟
٣

كَذٰلِكَ كِدْنَا لِيُوْسُفَ یہ ایک ایسی تدبیر تھی جس میں توریے کا سا انداز تھا اور اس سے مقصود کسی کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ اس پورے خاندان کو آپس میں ملانا تھا۔ اس تدبیر کی ذمہ داری اللہ نے خود لی ہے کہ حضرت یوسف نے اپنی طرف سے ایسا نہیں کیا تھا بلکہ اللہ نے آپ کے لیے یہ ایک راہ نکالی تھی۔ یہ وضاحت اس لیے ضروری تھی تاکہ کسی ذہن میں یہ اشکال پیدا نہ ہو کہ ایسی تدبیر اختیار کرنا شان نبوت کے منافی ہے۔ یہاں پر یہ نکتہ لائق توجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اختیار بھی مطلق ہے اور اس کا علم بھی ہر شے پر محیط ہے۔ اللہ کو تو علم تھا کہ یہ عارضی سا معاملہ ہے اور اس سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ مَا كَانَ لِيَاْخُذَ اَخَاهُ فِيْ دِيْنِ الْمَلِكِ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ لفظ ”دین“ کی تعریف definition کے اعتبار سے قرآن کی یہ آیت بہت اہم ہے۔ یہاں دِیْنِ الْمَلِکِ بادشاہ کے دین سے مراد وہ نظام ہے جس کے تحت بادشاہ اس پورے ملک کو چلا رہا تھا ‘ جس میں بادشاہ اقتدار اعلیٰ Sovereignty کا مالک تھا۔ اس کا اختیار مطلق تھا ‘ اس کا ہر حکم قانون تھا اور پورا نظام سلطنت و مملکت اس کے تابع تھا۔ اس حوالے سے ”دین اللہ“ کی اصطلاح بہت آسانی سے واضح ہوجاتی ہے۔ چناچہ اگر اللہ کے اقتدار Sovereignty اور اختیار مطلق کو تسلیم کر کے پورا نظام زندگی اس کے تابع کردیا جائے تو یہی ”دین اللہ“ کا عملی ظہور ہوگا۔ یہی وہ کیفیت تھی جو ”دین اللہ“ کے غلبے کے بعد جزیرہ نمائے عرب میں پیدا ہوئی تھی اور جس کی گواہی سورة النصر میں اس طرح دی گئی ہے : اِذَاجَآءَ نَصْرُاللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا۔ اسی طرح آج کا دین جسے عوام کی فلاح کا ضامن قرار دیا جا رہا ہے ”دین الجمہور“ ہے۔ اس دین یا نظام میں قانون سازی کا اختیار جمہور یعنی عوام یا عوام کے نمائندوں کو حاصل ہے وہ جسے چاہیں جائز قرار دیں اور جسے چاہیں ناجائز اور یہی سب سے بڑا کفر اور شرک ہے۔بہر حال اس وقت مصر میں بادشاہی نظام رائج تھا جس کو حضرت یوسف بدل نہیں سکتے تھے کیونکہ آپ بادشاہ تو نہیں تھے۔ آپ کو جو اختیار حاصل تھا وہ اسی نظام کے مطابق اپنے شعبے اور محکمے کی حد تک تھا جس کے وہ انچارج تھے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے یہ تدبیر نکالی۔ آپ کے بھائیوں سے پہلے یہ اقرار کرا لیا گیا کہ جس کے سامان سے وہ پیالہ برآمد ہوگا سزا کے طور پر اسے خود ہی غلام بننا پڑے گا اور اس طرح حضرت یوسف کے لیے جواز پیدا ہوگیا کہ وہ اپنے بھائی کو اپنے پاس روک سکیں۔نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَاۗءُ ۭ وَفَوْقَ كُلِّ ذِيْ عِلْمٍ عَلِيْمٌیعنی علم کے لحاظ سے علماء کے درجات ہیں۔ ہر عالم کے اوپر اس سے بڑا عالم ہے اور یہ درجات اللہ تعالیٰ کی ذات پر جا کر اختتام پذیر ہوتے ہیں جو سب سے بڑا عالم ہے۔