فَلَمَّا
جَهَّزَهُمْ
بِجَهَازِهِمْ
جَعَلَ
السِّقَایَةَ
فِیْ
رَحْلِ
اَخِیْهِ
ثُمَّ
اَذَّنَ
مُؤَذِّنٌ
اَیَّتُهَا
الْعِیْرُ
اِنَّكُمْ
لَسٰرِقُوْنَ
۟
٣

آیت نمبر 70 تا 78

یہ ایک نہایت ہی دلچسپ منظر ہے۔ اس میں متنوع حرکات ، تاثرات ، سر پر ائز شامل ہیں۔ جیسا کہ کوئی نہایت ہی موثر ، جذباتی اور زندگی سے بھر پور کوئی ڈرامائی منظر ہو سکتا ہے۔ لیکن کمال یہ ہے کہ قرآن کریم زندہ اور حقیقی واقعات کو نہایت ہی موثر انداز میں بیان کرتا ہے۔

پس پردہ حرکت یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) بادشاہ کے پیمانے یا پیالے کو ان کے سامان میں رکھوا رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے یہ پیالہ بیک وقت پینے کے کام بھی آتا تھا اور غلہ ماپنے کا پیمانہ بھی تھا ۔ اس دور میں گندم کو سونے کے پیمانے میں ناپنا تعجب انگیز امر نہیں ہے کیونکہ اس قحط کے دور میں سونے کے مقابلے میں گندم کی اہمیت زیادہ تھی۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) پس منظر میں اس پیالے کو اپنے بھائی کے بار میں رکھوا رہے ہیں تا کہ اللہ کی ہدایات کے مطابق اس تدبیر اے بھائی کو پکڑا جاسکے۔ تفصیلات ابھی آرہی ہیں۔

اب جبکہ یہ قافلہ بار لدوا کر واپس عازم کنعان ہوچکا تو ایک منادی نمودار ہوتا ہے اور وہ اعلان عام کی شکل میں آواز دیتا ہے اور یہ اعلان پورے قافلے کے لئے ہے۔

ایتھا العیر انکم لسرقون (12 : 70) “ اے قافلے والو ! تم لوگ چور ہو ”۔ برادران یوسف ڈر سے کانپ اٹھتے ہیں کیونکہ چوری کا الزام پورے قافلے پر لگ چکا ہے۔ ان کے لئے اس کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ وہ حضرت یعقوب علی السلام ، ابن اسحاق ابن ابراہیم (علیہم السلام) کے بیٹے ہیں۔ یہ لوگ اپنے جانور اور بار واپس کرلیتے ہیں تا کہ اس الزام کی تحقیقات کی جاسکے۔