وَلَمَّا
فَتَحُوْا
مَتَاعَهُمْ
وَجَدُوْا
بِضَاعَتَهُمْ
رُدَّتْ
اِلَیْهِمْ ؕ
قَالُوْا
یٰۤاَبَانَا
مَا
نَبْغِیْ ؕ
هٰذِهٖ
بِضَاعَتُنَا
رُدَّتْ
اِلَیْنَا ۚ
وَنَمِیْرُ
اَهْلَنَا
وَنَحْفَظُ
اَخَانَا
وَنَزْدَادُ
كَیْلَ
بَعِیْرٍ ؕ
ذٰلِكَ
كَیْلٌ
یَّسِیْرٌ
۟
٣

ولما فتحوا متاعھم۔۔۔۔۔۔۔۔ کیل یسیر ۔ (12 : 65) “ پھر جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تو دیکھا کہ ان کا مال بھی انہیں واپس کردیا گیا ہے۔ یہ دیکھ کر وہ پکار اٹھے “ ابان جان ، اور ہمیں کیا چاہئے ، دیکھئے یہ ہمارا مال بھی ہمیں واپس دے دیا گیا ہے۔ اب ہم جائیں گے اور اپنے اہل عیال کے لئے رسد لے کر آئیں گے ، اپنے بھائی کی حفاظت بھی کریں گے اور ایک بار شتر اور زیادہ بھی لے آئیں گے ، اتنے غلہ کا اضافہ آسانی کے ساتھ ہوجائے گا ”۔

ان کے استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ صرف خاندان کا بھلا چاہتے ہیں ، جب خاندان کے لئے ہم زاد راہ کی تلاش میں جا رہے ہیں تو ظاہر ہے کہ بھائی کی حفاظت کریں گے۔ بھائی کی وجہ سے ایک بار شتر غلہ اور زیادہ مل جائے گا۔ جب بھائی ساتھ ہوگا تو اس کا حصہ رسدی لازماً ملے گا۔

ان کی اس بات سے کہ ہم ایک بار شتر غلہ زیادہ لائیں گے ، یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) ہر شخص کو ایک بار شتر غلہ دیتے تھے۔ کسی شخص کو اس بات کی اجازت نہ تھی کہ وہ جس قدر غلہ چاہے لے جائے۔ کیونکہ خشک سالی کے دور میں کنڑول کرنے میں حکمت تھا تا کہ سب کو تھوڑا تھوڑا غلہ ملتا رہے۔