قَالَ
هَلْ
اٰمَنُكُمْ
عَلَیْهِ
اِلَّا
كَمَاۤ
اَمِنْتُكُمْ
عَلٰۤی
اَخِیْهِ
مِنْ
قَبْلُ ؕ
فَاللّٰهُ
خَیْرٌ
حٰفِظًا ۪
وَّهُوَ
اَرْحَمُ
الرّٰحِمِیْنَ
۟
٣

قال ھل ۔۔۔۔۔۔ من قبل (12 : 64) “ باپ نے جواب دیا “ کیا میں اس کے معاملے میں تم پر ویسا ہی بھروسہ کروں جیسا اس سے پہلے اس کے بھائی کے معاملہ کرچکا ہوں ؟ ” چھوڑو ، یہ جھوٹے وعدے اور اپنے پاس رکھو اپنی حفاظت ، میں اللہ کی حفاظت اور اللہ کی رحمت کا طالب ہوں۔ صرف وہی حفاظت کرنے والا ہے۔

فاللہ خیر حفظا وھو ارحم الرحمن (12 : 64) “ اللہ ہی بہتر محافظ ہے اور وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے ”۔ جانوروں کو سنبھالنے اور سفر سے سستانے کے بعد جب انہوں نے اپنے سامانوں کو کھولا تا کہ لائے ہوئے غلے کو ٹھکانے لگائیں ، تو کیا دیکھتے ہیں کہ ان کا وہ پورا سامان انہیں واپس کردیا گیا ہے جو وہ غلہ خریدنے کے لئے لے گئے تھے اور ان کے غلے کے ساتھ خود ان کا اپنا سامان دے دیا گیا۔

حضرت یوسف (علیہ السلام) نے انہیں گندم دینے کے ساتھ خود ان کا سامان بھی ان کے باروں میں رکھ دیا ، تو جب سامان کھولا تو انہوں نے اپنا سامان پایا۔ اس لئے انہوں نے کہا اے باپ ہم سے گندم روک لی گئی اور یہ اس لیے کیا گیا تا کہ وہ مجبور ہوجائیں اور بھائی کو لے کر جائیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو جو سبق دینا چاہتے تھے یہ اس کا ایک حصہ تھے۔ انہوں نے اپنے سامان کی واپسی کو اس بات کے لئے بطور دلیل پیش کیا کہ وہ بھائی کو ساتھ لے جانے کے مطالبے میں زیادتی نہیں کر رہے اور نہ ظلم کر رہے ہیں۔