فَلَمَّا
رَجَعُوْۤا
اِلٰۤی
اَبِیْهِمْ
قَالُوْا
یٰۤاَبَانَا
مُنِعَ
مِنَّا
الْكَیْلُ
فَاَرْسِلْ
مَعَنَاۤ
اَخَانَا
نَكْتَلْ
وَاِنَّا
لَهٗ
لَحٰفِظُوْنَ
۟
٣

اب حضرت یوسف (علیہ السلام) مصر میں رہ جاتے ہیں اور کنعان میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور برادران یوسف (علیہ السلام) منظر پر ہیں۔ ان کی واپسی کے بارے میں قرآن خاموش ہے۔

آیت نمبر 63 تا 66

معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ سیدھے باپ کے سلام کو حاضر ہوئے۔ سامان کھولنے سے بھی پہلے انہوں نے باپ کو یہ بتانا ضروری خیال کیا کہ ہمارے بارے میں تو فیصلہ کردیا گیا ہے کہ جب تک ہم اپنے چھوٹے بھائی کو عزیر مصر کے سامنے پیش نہ کریں گے ہمیں مزید کوئی غلہ نہ دیا جائے گا۔ چناچہ پہنچتے ہی انہوں نے باپ سے مطالبہ شروع کردیا کہ چھوٹے بھائی کو ساتھ بھیجیں تا کہ ایک اونٹ بار غلہ بھی مل جائے اور وہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی لیتے ہیں۔

فلما رجعوا الی ۔۔۔۔۔۔ لحفظون (12 : 63) “ جب وہ اپنے باپ کے پاس گئے تو کہا “ اباجان ، آئندہ ہم کو غلہ دینے سے انکار کردیا گیا ہے ، لہٰذا آپ ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے تا کہ ہم غلہ لے کر آئیں ۔ اور اس کی حفاظت کے ہم ذمہ دار ہیں ”۔ اب حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے خفیہ خدشات سامنے آجاتے ہیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں بھی انہوں نے ایسا ہی پختہ عہد کیا تھا۔ چناچہ آپ اپنے درد کا اظہار کردیتے ہیں۔