You are reading a tafsir for the group of verses 83:7 to 83:9
كَلَّاۤ
اِنَّ
كِتٰبَ
الْفُجَّارِ
لَفِیْ
سِجِّیْنٍ
۟ؕ
وَمَاۤ
اَدْرٰىكَ
مَا
سِجِّیْنٌ
۟ؕ
كِتٰبٌ
مَّرْقُوْمٌ
۟ؕ
3

ان لوگوں کو یہ یقین نہیں ہے کہ یہ لوگ قیامت کے یوم عظیم میں اٹھائے جائیں گے۔ اسی لئے قرآن کریم نہایت سرزنش اور زجروتوبیخ کے انداز میں اس سے روکتا ہے اور نہایت تاکید کے ساتھ بتاتا ہے کہ ایک کتاب میں ان کے تمام اعمال ثبت کئے جارہے ہیں۔ اور اس بات کو زیادہ تاکیدی بنانے کے لئے یہ بھی بتاتا ہے کہ یہ کتاب کہاں رکھی ہوئی ہے اور یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جب ان فساق وفجار کے سامنے ، اس عظیم دن میں ان کی کتاب پیش کی جائے گی تو ان پر بڑی بربادی واقع ہوگی۔

کلا ان .................................... للمکذبین (7:83 تا 10) ” ہرگز نہیں ، یقینا بدکاروں کا نامہ اعمال قید خانے کے دفتر میں ہے۔ اور تمہیں کیا معلوم کہ کیا ہے وہ قید خانے کا دفتر ؟ وہ ایک کتاب ہے لکھی ہوئی۔ تباہی ہے اس روز جھٹلانے والوں کے لئے “۔ فجار ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اثم ومعصیت میں حدوں سے گزر جائیں ، خود لفظ فجار کی صوتی لہروں میں یہ مفہوم پوشیدہ ہے۔ ان کی کتاب سے مراد ان کا اعمال نامہ ہے۔ اس کی ماہیت اور کیفیت کا علم انسانوں کو نہیں ہے۔ یہ غیبی امور میں سے ہے اور اس کے بارے میں ہم صرف اتنی بات کرسکتے ہیں جو مخبر صادق نے ہمیں اطلاع دی ہو ۔ قرآن نے یہ کہا ہے کہ بدکاروں کے اعمال کا ایک دفتر ہے اور یہ سجین میں ہے۔ قرآن کریم کا یہ انداز ہے کہ وہ کسی بات کو خوفناک بنانے کے لئے ایک سوال کردیتا ہے۔

وما ادرک ما سجین (8:83) ” تمہیں کیا معلوم کہ سجین کیا ہے ؟ “ مقصد یہ تاثر دینا ہے کہ یہ معاملہ تمہارے حد ادراک سے آگے اور دور ہے اور بہت عظیم ہے اور تمہارے دائرہ ادراک سے بڑا ہے۔ لیکن قرآن بہرحال اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ

ان کتب .................... سجین (7:83) ” فجار کا اعمال نامہ سجین میں ہے “۔ جو ایک متعین جگہ ہے۔ اگرچہ انسان کو معلوم نہیں ہے۔ اس طرح قارئین کو ایک یقینی اطلاح دی جارہی ہے کہ یہ اعمال نامہ تیار اور موجود ہے اور یہی یہاں مقصود ہے۔

کتب مرقوم (9:83) ” وہ ایک کتاب ہے لکھی ہوئی “۔ اعمال نامہ کی تفصیلات کہ فجار کا یہ اعمال نامہ تیار شدہ ہے۔ اور اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی۔ بس اس عظیم دن میں اسے کھولا جائے گا۔ اس لئے خیال کرو۔