You are reading a tafsir for the group of verses 83:7 to 83:8
كَلَّاۤ
اِنَّ
كِتٰبَ
الْفُجَّارِ
لَفِیْ
سِجِّیْنٍ
۟ؕ
وَمَاۤ
اَدْرٰىكَ
مَا
سِجِّیْنٌ
۟ؕ
3

آیت 7{ کَلَّآ اِنَّ کِتٰبَ الْفُجَّارِ لَفِیْ سِجِّیْنٍ۔ } ”ہرگز نہیں ! یقینا گناہگاروں کے اعمال نامے سجین میں ہوں گے۔“ عام طور پر کتاب سے یہاں اعمال نامہ ہی مراد لیا گیا ہے کہ کافر و فاجر لوگوں کے اعمال نامے ”سِجِّین“ میں ‘ جبکہ نیک لوگوں کے اعمال نامے ”عِلِّیّین“ بحوالہ آیت 18 میں ہوں گے۔ تاہم بعض احادیث سے پتا چلتا ہے کہ ”سجین“ ایک مقام ہے جہاں اہل دوزخ کی روحیں محبوس ہوں گی ‘ جبکہ اہل جنت کی ارواح ”علیین“ میں ہوں گی۔ چناچہ سجین اور علیین کا یہ فرق صرف اعمال ناموں کو رکھنے کے اعتبار سے نہیں ہوسکتا۔ اس حوالے سے میرے غور و فکر کا حاصل یہ ہے کہ انسان کے خاکی جسم میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو روح پھونکی گئی ہے وہ ایک نورانی چیز ہے۔ انسان اچھے برے جو بھی اعمال کرتا ہے اس کے اثرات اس کی روح پر مترتب ہوتے رہتے ہیں ‘ جیسے آواز کی ریکارڈنگ کرتے ہوئے ٹیپ کے فیتے ‘ سی ڈی یا مائیکرو کارڈ وغیرہ پر اس آواز کے اثرات نقش ہوجاتے ہیں۔ چناچہ انسانوں کی ارواح جب اس دنیا سے جاتی ہیں تو اعمال کے اثرات اپنے ساتھ لے کر جاتی ہیں۔ ان ”اثرات“ کی وجہ سے ہر روح دوسری روح سے مختلف ہوجاتی ہے اور یوں نیک اور برے انسانوں کی ارواح میں زمین آسمان کا فرق واقع ہوجاتا ہے۔ چناچہ میری رائے میں انسانی ارواح پر ثبت شدہ اثراتِ اعمال کو یہاں لفظ ”کتاب“ سے تعبیر کیا گیا ہے ‘ یعنی انسانی ارواح اعمال کے اثرات لیے ہوئے جب اس دنیا سے جائیں گی تو برے اعمال کے اثرات والی ارواح کو سجین میں رکھا جائے گا۔ سجن کے معنی ”جیل خانہ“ کے ہیں۔ گویا برے لوگوں کی ارواح کو وہاں کسی جیل نما جگہ میں بند کردیا جائے گا ‘ جیسے ضلعی انتظامیہ کے ”محافظ خانے“ میں پرانی فائلوں کے انبار لگے ہوتے ہیں۔