واذا .................................... لضالون (32:83) ” اور جب انہیں دیکھتے تھے تو کہتے کہ یہ بہکے ہوئے لوگ ہیں “۔ اور یہ تو نہایت ہی تعجب خیز بات ہے کہ اب یہ لوگ ہدایت وضلالت کے موضوع پر بات کرنے لگے ہیں اور بزعم خود یہ اہل حق اور اہل ہدایت کو اہل ضلالت اور گمراہ کہتے ہیں ، اور نہایت وثوق اور تحقیر آمیز طریقے سے یہ تبصرہ کرتے ہیں۔
ان ھولاء لضالون (32:83) ” کہ یہ لوگ بہکے ہوئے ہیں “۔
فسق وفجور کا یہ مزاج ہے کہ وہ ایک حد پر نہیں رکتا ، وہ کسی بات سے نہیں شرماتا ، کسی فعل پر ناد نہیں ہوتا۔ ان فساق وفجار کی طرف سے اہل ایمان جیسے معیاری لوگوں پر یہ الزام لگانا کہ وہ بہکے ہوئے ہیں ، اس بات کا ظاہر کرتا ہے کہ فساق وفجار کسی حد پر جاکر نہیں رکتے اور بےحیا ہوتے ہیں۔
قرآن کریم اہل ایمان کی جانب سے نہ مناظرہ کرتا ہے اور نہ مجادلہ۔ نہ وہ اس افترا کی تردید کرتا ہے کیونکہ یہ ایک ایسی ناسقانہ گھٹیا بات ہے جس کی طرف سنجیدہ التفات کی ضرورت ہی نہیں ہے لیکن قرآن کریم ان لوگوں کے ساتھ ایک سنجیدہ مذاق ضرور کرتا ہے جو ایک ایسے معاملے میں ٹانگ اڑاتے ہیں جس کے ساتھ ان کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ان کا ہدایت وضلالت سے کیا کام ہے۔ اور مسلمانوں کی نگرانی پر ان کو کس نے مامور کیا۔