اہل ایمان کے ساتھ مجرموں کے استہزا کے مناظر ، ان کی جانب سے دست درازیوں اور زیادتیوں کے جو شاید قرآن نے یہاں قلم بند کیے ہیں خصوصاً ان کا یہ تبصرہ کہ مسلمان گمراہ لوگ ہیں ، یہ سب مناظر مکہ کی سوسائٹی کے عملی مناظر ہیں ، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اقامت دین کی ہر کسی تحریک کے کارکن انہی حالات اور نہی ریمارکس سے دو چار ہوتے ہیں۔ ہر دور اور ہر نسل میں یہی صورت حالات ہوا کرتی ہے۔ آج ہم اپنے دور کے حالات کو جب دیکھتے ہیں تو یہ نظر آتا کہ شاید یہ آیات ابھی ہمارے حسب حال اتری ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فساق وفجار کا مزاج ایک جیسا ہوتا ہے اور اہل حق کے مقابلے میں ان کا موقف بھی ہمیشہ ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔ اس میں زمان ومکان کے فرق سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ان الذین ........................ یضحکون (29:83) ” مجرم لوگ دنیا میں ایمان لانے والوں کا مذاق اڑاتے تھے “۔ یہ ایسے ہی تھے ، اس ” تھے “ نے صدیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اب یہ آخرت کی بات ہورہی ہے۔ یہ اپنی آنکھوں سے اہل جنت کی نعمتوں کو دیکھ رہے ہیں۔ یہاں آخرت میں ان کو ذرا یاد دلایا جارہا ہے کہ تم تو یہ رویہ رکھتے تھے۔ یاد ہے نا۔
یہ اہل ایمان سے بطور مذاق ہنستے تھے کہ یہ ہیں مومن۔ یہ ہیں ” صالح “۔ یہ ہیں ” صالحین “۔ یہ کیوں ہنستے تھے۔ یا تو اس لئے کہ یہ لوگ غریب اور فقیر تھے اور بات انقلاب کی کرتے تھے اور پہنے ہوئے ہوتے تھے چیتھڑے۔ یا اس لئے کہ ہر طرف سے ان پر مار پڑتی ہے۔ جیلوں میں ہیں ، اپنا دفاع بھی نہیں کرکستے۔ یا اس لئے کہ یہ لوگ ان کی حماقتوں میں شریک نہ ہوتے تھے۔ ان لوگوں کے ہاں یہ سب باتیں مضحکہ خیز تھیں۔ چناچہ وہ اہل ایمان پر طنز وتشنیع کے تیر برساتے تھے۔ ان کو اذیت دیتے تھے۔ ان پر تشدد کرتے تھے اور نہایت ہی رذالت اور گھٹیا انداز میں ان سے مذاق کرتے تھے۔ اس بات کا اہل ایمان پر برا اثر ہوتا تھا۔ اور ان کی تکلیف ہوتی تھی لیکن وہ صبر کرتے تھے۔ بلند اخلاقی اختیار کرتے تھے اور نہایت شائستگی سے بات کو ٹال دیتے تھے۔