علی .................... ینظرون (23:83) ” اونچی مسندوں پر بیٹھے نظارے کررہے ہوں گے “۔ یعنی نہایت ہی مکرم مقام پر ہوں گے۔ اور اس مقام پر یہ جہاں چاہیں گے ، سیر کرتے پھریں گے۔ ذلت و خواری کی وجہ سے ان کی نظریں سہمی ہوئی نہ ہوں گی۔ اور نہ تھک تھکا کر وہ آنکھیں بند کرلیں گے۔ یہ لوگ تختوں پر اور مسندوں پر بیٹھے ہوں گے اور نظارے کررہے ہوں گے جس طرح حجلہ عروسی پہ لوگ بیٹھے ہوتے ہیں۔ عربوں کے نزدیک عیش و عشرت اور نعمت اور آرام کا یہ ارفع مقام ہوا کرتا تھا کہ کوئی حجلہ عروسی میں ہو ، اور اونچی اوانچی مسندوں پر آرام سے بیٹھا ہو کیونکہ بالعموم ایک عربی کی زندگی سخت مشقت کی زندگی ہوتی ہے۔ یہ تو دنیاوی زندگی کی ایک تمثیل ہے۔ آخرت میں جو صورت ہوگی وہ ناقابل تصور حد تک ارفع وبلند ہوگی۔ اور ان کے بلند سے بلند تصور سے بھی اعلیٰ وارفع ہوگی۔ اور زمین اور اس دنیا کے اونچے سے اونچے تصور اور تجربے سے بھی اونچی ہوگی۔
ان نعمتوں میں وہ جسمانی طور پر بھی نرم ونازک ہوں گے۔ اور ان کی اسی نزاکت اور نرمی اور خوشی اور خوشحالی کے اثرات ان کے چہرے سے ظاہر ہوں گے۔ اور ہر آدمی اس کا مشاہدہ کررہا ہوگا۔