آیت 14{ کَلَّا بَلْ سکتۃ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ۔ } ”نہیں ! بلکہ اصل صورت حال یہ ہے کہ ان کے دلوں پر زنگ آگیا ہے ان کے اعمال کی وجہ سے۔“ اس ’ زنگ ‘ کی تشریح رسول اللہ ﷺ نے یوں فرمائی ہے کہ ”بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کرلے ‘ اس گناہ سے باز آجائے اور استغفار کرے تو اس کے دل کا یہ داغ صاف ہوجاتا ہے ‘ لیکن اگر وہ گناہوں کا ارتکاب کرتا ہی چلا جائے تو وہ داغ بڑھتے جاتے ہیں ‘ یہاں تک کہ سارے دل کو گھیر لیتے ہیں۔“ مسند احمد ‘ ترمذی ‘ نسائی ‘ ابن ماجہ وغیرہ گناہگار اہل ِایمان کے دلوں کے اندر ان کی روحوں کا ”نور“ تو موجود ہوتا ہے لیکن دلوں کے ”شیشے“ زنگ آلود ہوجانے کی وجہ سے یہ نور خارج میں اپنے اثرات نہیں دکھا سکتا۔ جیسے کسی فانوس یا لالٹین کا شیشہ اگر دھوئیں سے سیاہ ہوجائے تو اس کے اندر جلنے والے شعلے کی روشنی باہر نہیں آسکتی اور باہر کی روشنی اندر نہیں جاسکتی۔ انسانی دل کی اس کیفیت کی وضاحت کرتے ہوئے حضور ﷺ نے اس کا علاج بھی تجویز فرمادیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر - روایت کرتے ہیں کہ آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : اِنَّ ھٰذِہِ الْقُلُوْبَ تَصْدَأُ کَمَا یَصْدَأُ الْحَدِیْدُ اِذَا اَصَابَہُ الْمَائُ قِیْلَ : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَا جِلَائُ ھَا ؟ قَالَ : کَثْرَۃُ ذِکْرِ الْمَوْتِ وَتِلَاوَۃُ الْقُرْآنِ 1”ان دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے جیسے لوہا پانی پڑنے سے زنگ آلود ہوجاتا ہے“۔ دریافت کیا گیا : یارسول اللہ ! اس زنگ کو دور کس چیز سے کیا جائے ؟ فرمایا : ”موت کی بکثرت یاد اور قرآن مجید کی تلاوت !“