You are reading a tafsir for the group of verses 82:7 to 82:8
الَّذِیْ
خَلَقَكَ
فَسَوّٰىكَ
فَعَدَلَكَ
۟ۙ
فِیْۤ
اَیِّ
صُوْرَةٍ
مَّا
شَآءَ
رَكَّبَكَ
۟ؕ
3

الذی ........................ فعدلک (7:82) ” جس نے تمہیں پیدا کیا ، تمہیں نک سک سے درشت کیا اور متناسب بنایا “۔ اور یہ خطاب یایھا الانسان سے شروع کیا۔

مثلاً انسان کی قوت مدرکہ جو عقل میں ہے ، ہم اس کی حقیقت کو نہیں جانتے ، اس قدر جانتے کہ یہ ادراک قوت عقلیہ کے ذریعے ہوتا ہے اور قوت عقلیہ ہی آلہ ادراک ہے۔ جہاں تک عقل کا تعلق ہے ، ہم نے اسے جانتے ہیں اور نہ یہ جانتے ہیں کہ اس قوت کا عمل ادراک کس طرح کام کرتا ہے۔

ہماری معلومات اور مدرکات کس طرح دماغ میں رہتی ہیں ، ہم بس اس قدر فرض کرلیتے ہیں کہ نہایت ہی لطیف دماغی اور اعصابی ریشوں کے ذریعہ یہ معلومات اور مدرکات ذہن اور عقل میں منتقل ہوتی ہیں۔ لیکن عقل اسے کہاں سٹور کرتی ہے ؟ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ دماغ کے اندر ریکارڈ کرنے کا کوئی فیتو ہے تو پھر ساٹھ (60) سال کے لئے کئی ملین میٹر طویل فیتہ ونا چاہئے کہ وہ ساٹھ سالہ زندگی میں انسانی مشاہدات کو ریکارڈ کرے۔ ساٹھ سال کا ذکر ہم اس لئے کرتے ہیں کہ بالعموم اوسط عمر ساٹھ سال ہوتی ہے۔ ان ساٹھ سالوں میں انسان الفاظ ومعانی ، تاثرات اور شعور اور مناظر ومشاہد کے لاتعداد چیزیں اپنے دماغ میں ریکارڈ کرتا ہے۔

انفرادی الفاظ ومعانی پھر کس طرح مرکب ہوکر نتائج پیدا کرتے ہیں۔ انفرادی حادثات اور انفرادی تصاویر کس طرح کمپوز ہوکر علم اور کلچر پیدا کرتی ہیں۔ یہ ایک الگ دنیا ہے اور معلومات علوم اور اصول میں بدل جاتی ہیں۔ مدرکات اور ادراک کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور تجربات سے علم وسائنس وجود میں آتے ہیں۔ یہ اپنی جگہ دنیا کے عجائبات ہیں۔

یہ تو ہوئی انسان کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ، جو اس کے ساتھ مخصوص ہے۔ اور اس کی وجہ سے انسان ممتاز ہے۔ لیکن انسان کی خصوصیات میں سے یہ کوئی بڑی خصوصیت نہیں ہے بلکہ انسان کے اندر اللہ کی روح سے جلا ہوا ایک چراغ بھی ہے جسے انسان روح کہا جاتا ہے ۔ انسان کی یہ روح انسان کو جمال کائنات کے ساتھ جوڑتی ہے اور یہی روح ہر انسان کو خالق کی روح سے مربوط کرتی ہے۔ اور انسان کو وہ لمحات نصیب کرتی ہے جن میں انسان حقیقت کبریٰ کے ساتھ جڑ جاتا ہے ، جو اپنی جگہ لامحدود ہے اور اس اتصال میں پھر انسان جمال حقیقت کبریٰ کی کچھ جھلکیاں پالیتا ہے۔

انسان اس روح کی حقیقت سے بھی بیخبر ہے۔ روح تو ایک بڑی چیز ہے ، انسان جن محسوسات کا ادراک کرتا ہے ، وہ تو ان کی حقیقت سے بھی بےبہرہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ روح ہی ہے جو اسے خوشی اور سعادت مندی کے وہ لمحات اور وہ جھلکیاں عطا کرتی ہے جن کی وجہ سے وہ اس زمین پر ہوتے ہوئے بھی عالم بالا سے مربوط ہوجاتا ہے۔ اور یوں وہ جنت کی ابدی زندگی کے لئے تیار ہوجاتا ہے اور وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ حقیقت کبریٰ کے جمال کو دیکھ سکے۔

یہ روح ، انسان کے لئے اللہ کا مخصوص تحفہ ہے۔ اور اس روح ہی کی وجہ سے انسان ، انسان قرار پایا ہے۔ اور اسی وجہ سے اللہ نے اسے یوں مخاطب کیا۔

یایھا الانسان اور پھر اسے اس قدر محبت آمیز سرزنش کی۔

ماغرک ................ الکریم (6:82) ” تجھے رب کریم کے بارے میں کس چیز نے غرے میں ڈال دیا ہے “۔ یہ اللہ کی طرف سے انسان کے لئے براہ راست سرزنش ہے۔ اللہ بذات خود انسان کو پکارتا ہے اور انسان جب نظریں اٹھاتا ہے تو وہ اللہ کے سامنے ایک گنہگار ، غافل ، اللہ کے فضل وکرم کی قدر نہ کرنے والا ، بلکہ اللہ کے ہاں ایک گستاخ شخصیت کی صورت میں کھڑا نظر آتا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ اسے اپنی عظیم نعمت اور اپنے فضل وکرم سے آگاہ فرماتا ہے۔ اور اس کو اس کی ناقدری ، اور اس کی تقصیرات اور گستاخیوں سے مطلع فرماتا ہے۔

یہ ایک انسانی سرزنش ہے کہ اگر انسان میں احساس ہو تو وہ پانی پانی ہوجائے۔ اگر انسان اپنی انسانیت کے سر چشمے کو تلاش کرے ، اور اللہ کی اس اطلاع اور اللہ کی ذات پر غور کرے اور یہ دیکھے کہ وہ کس بادشاہ کے سامنے کھڑا ہے۔ اسے کس قدر عظیم ذات پکاررہی ہے ، اور اس کی سرزنش کررہی ہے اور اس پر یہ عتاب ہورہا ہے ، تو حقیقت یہ ہے کہ انسان پگھل کر رہ جائے۔ ذرا غور کرو۔

یایھا الانسان ................................ رکبک (6:82 تا 8) ” اے انسان ، کس چیز نے تجھے اپنے رب کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا ، جس نے تجھے پیدا کیا ، تجھے نک سک سے درست کیا ، تجھے متناسب بنایا ، اور جس صورت میں چاہا ، تجھ کو جوڑ کر تیار کیا “۔

اب اگلے پیرے میں یہ بتایا ہے کہ انسان کیوں غافل ہوجاتا ہے اور اس سے تقصیرات کیوں سرزد ہوتی ہیں۔ ان کا اصل سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ قیامت کے دن کا یقین نہیں رکھتا۔ بتایا جاتا ہے کہ حساب و کتاب ایک حقیقت ہے اور اس کی کیفیات اور مناظر یوں ہوں گے۔ اور یہ کہ لوگوں کا انجام یکساں نہ ہوگا اور اس حقیقت کو نہایت تاکید کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔