آیت 6{ یٰٓــاَیُّہَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ۔ } ”اے انسان ! تجھے کس چیز نے دھوکے میں ڈال دیا ہے اپنے ربّ کریم کے بارے میں۔“ ظاہر ہے یہ کام شیطان لعین ہی کرتا ہے۔ وہی انسان کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں دھوکے میں ڈالتا ہے۔ اس حوالے سے قرآن مجید میں بنی نوع انسان کو باربار خبردار کیا گیا ہے ‘ مثلاً سورة لقمان میں فرمایا : { وَلَا یَغُرَّنَّکُمْ بِاللّٰہِ الْغَـرُوْرُ۔ } کہ وہ بڑا دھوکے باز تم لوگوں کو اللہ کے بارے میں کہیں دھوکے میں مبتلا نہ کر دے ! لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام تر تنبیہات کے باوجود اکثر انسان شیطان کے اس جال میں پھنس جاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے شیطان مختلف لوگوں کے ساتھ مختلف چالیں اور حربے آزماتا ہے۔ مثلاً ایک دیندار شخص کو اہم فرائض سے ہٹانے کے لیے وہ نوافل اور ذکر و اذکار کا ُ پرکشش پیکج پیش کرسکتا ہے کہ تم اقامت دین اور دوسرے فرائض دینی کا خیال چھوڑو اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے راتوں کو جاگنے اور تہجد کی پابندی پر توجہ دو۔ عام مسلمانوں کے لیے اس کی بہت ہی تیر بہدف چال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غفورٌ رحیم ہے ‘ وہ کوئی خوردہ گیر نہیں کہ اپنے مومن بندوں کو چھوٹی چھوٹی خطائوں پر پکڑے۔ وہ تو بہت بڑے بڑے گناہگاروں کو بھی معاف کردیتا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں بےعملی کی سب سے بڑی وجہ شیطان کی یہی چال ہے ‘ بلکہ اس دلیل کے سہارے اکثر لوگ گناہوں کے بارے میں حیران کن حد تک جری اور بےباک ہوجاتے ہیں۔ اس لحاظ سے آیت زیر مطالعہ ہم میں سے ہر ایک کو دعوت فکر دے رہی ہے کہ اے اللہ کے بندے ! تمہاری بےعملی کی وجہ کہیں یہ تو نہیں ہے کہ شیطان نے تمہیں اللہ تعالیٰ کی شان غفاری کے نام پر دھوکے میں مبتلا کردیا ہے ؟