اذا السمائ ........................ واخرت
گزشتہ سورت میں ہم نے ان آثار کی بات کی تھی جو ان مظاہر کو دیکھ کر انسانی احساس پر نمودار ہوتے تھے ، یہ مناظر اس عظیم انقلاب سے متعلق تھے جو دست قدرت اس کائنات میں برپاکردے گا ، اس کائنات کو اس طرح ہلا مارا جائے گا کہ کوئی چیز اپنی جگہ پر قائم نہ رہے گی اور اس عظیم کائنات کو تہ وبالا کردیا جائے گا۔ ہم نے وہاں یہ بھی بتایا تھا کہ ان آثار میں سے بڑا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان کا دل اس پوری کائنات سے اٹھ جاتا ہے اور انسان اپنا تعلق اس خالق حقیقی کے ساتھ جوڑ لیتا ہے جو باقی اور لازوال ہے ۔ جو اس وقت بھی باقی رہے گا جب یہ پوری کائنات ہلا ماری جائے گی۔ ان تمام انقلابات ، زلزلوں اور توڑپھوڑ کے عظیم عمل میں انسان کے لئے واحدجائے پناہ اس ذات کبریا کی درگاہ ہے جو ثابت ، برقرار اور اس قدر منظم ہے جسے خلود اور دوام حاصل ہے۔ اور یہ خلود اور دوام صرف اسی ذات کا خاصہ ہے۔
یہ اس عظیم کائناتی انقلاب کے جو پہلو لائے گئے ہیں ، ان میں سے ایک پہلو آسمان کا پھٹنا ہے۔ آسمان کے پھٹنے اور شق ہونے کا ذکر اور منظر قرآن مجید کے کئی مقامات پر پیش کیا گیا ہے۔ سورة رحمن میں ہے۔
فاذا انشقت ................ کالدھان (37:55) ” جب آسمان پھٹ جائے گا تو وہ اس طرح سرخ ہوگا جس طرح چمڑا سرخ ہوتا ہے “۔ اور سورة الحاقہ میں ہے :
وانشقت .................... واھیة (16:69) ” اور آسمان پھٹ جائے گا اور اس کی بندش کھل جائے گی “۔ اور سورة انشقاق میں ہے :
اذا ........................ انشقت (1:84) ” جب آسمان پھٹ جائے گا “۔ اس مصیبت کے دن کی مشکلات اور حقائق میں سے ایک بڑی حقیقت یہ ہوگی کہ اس دن آسمان پھٹ جائے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ آسمان کے پھٹنے کی تفصیلی کیفیت کیا ہوگی ؟ تو حقیقت یہ ہے کہ اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ نہ اس کی اصل حقیقت سے ہم خبردار ہیں۔ جو کچھ ہم کہہ سکتے ہیں وہ یہی ہے کہ اس کائنات کی شکل و صورت میں ایک عظیم تغیر رونما ہوگا جو ہمیں نظر آتی ہے اور اس کا یہ موجودہ نظام درہم برہم ہوجائے گا اور اس کی موجودہ بندش کھل جائے گی جس نے اس کے تمام کر ات کو اس وقت اپنی جگہ باندھ کر رکھا ہے۔
یہاں اس عظیم فضا میں ستاروں کے بکھر جانے کا منظر بھی فضا کی ہولناکی میں شریک ہوجاتا ہے۔ اس وقت یہ ستارے اپنے اپنے مدار میں ایک خوفناک سرعت اور تیزی کے ساتھ گردش کررہے ہیں۔ لیکن اپنے اپنے مدار میں جکڑے ہوئے ہیں ، اور ایسا نہیں ہے کہ اس محیرالعقول وسیع فضا میں جدھر منہ ہو ، ادھر دوڑتے رہیں ، اور اگر یہ اس طرح بکھر جائیں جس طرح اس وقت ہوگا جب قیامت برپا ہوگی تو وہ اس نہایت مضبوط غیر مرئی نظام کی بندش سے چھوٹ جائیں ، جس نے ان کو جوڑ رکھا ہے ، تو یہ فضا میں اسی طرح پھرتے رہیں جس طرح ایک ذرہ فضا میں اڑتارہتا ہے۔
سمندروں کی ” تفجیر “ کا ایک مفہوم تو یہ ہوسکتا ہے کہ یہ بھر جائیں اور خشکی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں اور ایک عظیم طغیانی آجائے ، نیز اس کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ پانی پھٹ جائے اور جن عناصر سے وہ مرکب ہے ، ان عناصر کی صورت اختیار کرلے۔ یعنی آکسیجن اور ہائیڈروجن۔ جس طرح پانی کی تشکیل سے قبل یہ ہائیڈروجن اور آکسیجن گیس کی شکل میں تھا۔ اور یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ یہ دونوں عناصر بھی ایٹم اور ہائیڈروجن بم کی طرح پھٹ جائیں۔ اس کا تصور اب اچھی طرح کیا جاسکتا ہے کہ اگر ایٹم اور ہائیڈروجن پھٹ جائیں تو اس کائنات کے اندر کیا کچھ ہوجائے گا جبکہ موجود ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم اس دھماکے کے مقابلے میں محض کھلونے ہیں یا ” تفجیر “ کے کوئی اور معنی ہیں جو ابھی تک ہماری سمجھ سے باہر ہیں۔ عرض ایک عظیم ہولناک اور خوفناک صورت حالات ہوگی۔
قبروں کا کھلنا بھی ان حالات کی وجہ سے ہوگا یا مفہوم یہ ہوگا کہ اس طویل تبدیلی کے دوران حقیقتاً قبریں پھٹ پڑیں گی اور ان میں سے لوگوں کے جسم اٹھ کھڑے ہوں گے تاکہ یہ میدان حشر میں حساب و کتاب کے لئے چل پڑیں۔ اس آخری مفہوم کی تائید فقرہ مابعد سے بھی ہوتی ہے۔