اِنْ
هُوَ
اِلَّا
ذِكْرٌ
لِّلْعٰلَمِیْنَ
۟ۙ
3

آیت 27{ اِنْ ہُوَ اِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ۔ } ”نہیں ہے یہ مگر تمام جہان والوں کے لیے ایک یاد دہانی۔“ قرآن مجید اس مفہوم میں ذکر یعنی یاد دہانی ہے کہ یہ انسان کی فطرت میں پہلے سے موجود حقائق کی یاد تازہ کرتا ہے۔ دراصل انسان فطری طور پر اللہ تعالیٰ کی ذات اور توحید کے تصور سے آشنا ہے ‘ مگر دنیا میں رہتے ہوئے اگر انسان کی فطرت پر غفلت کے پردے پڑجائیں تو وہ اللہ تعالیٰ کو بھول جاتا ہے۔ سورة الحشر کی آیت 19 میں اس حوالے سے ہم اللہ تعالیٰ کا یہ حکم پڑھ چکے ہیں : { وَلَا تَـکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰٹھُمْ اَنْفُسَھُمْط } کہ اے اہل ایمان ! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے انہیں اپنے آپ سے ہی غافل کردیا۔ بہرحال اس غفلت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایمان باللہ سے متعلق وہ حقائق جو ہر انسان کی فطرت میں مضمر ہیں پس ِپردہ چلے جاتے ہیں۔ چناچہ قرآنی تعلیمات انسانی فطرت میں موجود ان تمام حقائق کو خفتہ dormant حالت سے نکال کر پھر سے فعال active کرنے میں اس کی مدد کرتی ہیں۔