آیت 25{ وَمَا ہُوَ بِقَوْلِ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ۔ } ”اور یہ کسی شیطانِ مردود کا قول نہیں ہے۔“ شیاطین جن چونکہ غیب کے نام پر جھوٹی سچی خبریں کاہنوں تک پہنچاتے رہتے تھے اس لیے یہاں اس امکان کی بھی تردید کردی گئی ہے۔ یعنی تم لوگ یہ مت سمجھو کہ جنوں میں سے کسی شیطان نے انہیں ﷺ کوئی پٹی ّپڑھا دی ہے معاذ اللہ۔ یہی مضمون سورة الحاقہ میں زیادہ وضاحت اور زیادہ ُ پرزور انداز میں یوں بیان ہوا ہے : { فَلَآ اُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُوْنَ - وَمَا لَا تُبْصِرُوْنَ۔ } ”میں قسم کھاتا ہوں ان چیزوں کی جو تم دیکھتے ہو اور ان کی بھی جو تم نہیں دیکھتے ہو“۔ یہاں پر مَا تُبْصِرُوْنَ سے شاعری وغیرہ مراد ہے ‘ اس لیے کہ شاعر لوگ اپنی سوچ اور فکر سے شعر کہتے ہیں ‘ جبکہ مَا لَا تُبْصِرُوْنَ کے الفاظ میں شیاطین جن کی خبروں کی طرف اشارہ ہے جو وہ کاہنوں تک پہنچاتے تھے۔ { اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ - وَّمَا ہُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍط قَلِیْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ - وَلَا بِقَوْلِ کَاہِنٍط قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ۔ } ”یہ قول ہے رسول کریم کا۔ اور یہ کسی شاعر کا قول نہیں ہے۔ کم ہی ہے جو تم یقین کرتے ہو۔ اور نہ ہی یہ کسی کاہن کا کلام ہے۔ کم ہی ہے جو تم غور کرتے ہو۔“