علمت .................... احضرت (14:81) ” اس وقت ہر شخص کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے “۔ اس خوفناک دن کے اندر ہر شخص کو معلوم ہوجائے گا کہ اس کے پاس کیا ہے اور اس کے ذمہ کیا ہے ، اس روز اس کو معلوم ہوجائے گا اور اس کی حالت یہ ہوگی کہ وہ کانپ رہا ہوگا اور اسے یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ اب وہ اپنے اعمال نامے میں کچھ بھی تغیر وتبدل نہیں کرسکتے گا۔ نہ اس میں کوئی زیادتی ہوگی اور نہ کمی ہوگی ، اسے یہ بات ایسے حالات میں معلوم ہوگی کہ وہ دنیا سے کٹ چکا ہوگا ، مستقبل کے بارے میں ان کے جو تصورات تھے ، وہ نہ رہے۔ وہ دنیا سے کٹ گئے اور دنیا ان سے دور ہوگئی۔ ہر شے متغیر ہوگئی اور ہر شے بدل سی گئی ہے۔ آج تو صرف ذات باری ہی قائم ودائم ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ لوگ اس دنیا ہی میں رب تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے تاکہ قیامت میں بدلتے ہوئے حالات میں بھی اللہ ان کے سامنے موجود ہوتا۔
ان موثر اشارات پر یہ پہلا پیرگراف ختم ہوتا ہے اور انسانی احساس کو گہرے شعور سے بھر دیتا ہے اور قیامت کے مناظر انسان کے ذہن میں بیٹھ جاتے ہیں اور انقلاب مکمل ہوتا ہے۔
اب دوسرا پیرگراف آتا ہے ، اس میں اس کائنات کے خوبصورت ترین مناظر کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔ اس کے لئے نہایت ہی خوبصورت تصورات چنے گئے ہیں۔ وحی کیا ہے ، اس پر قسم ہے ، منصب رسالت اور وہ فرشتے کیسے ہیں جو اس کو لے کر آرہے ہیں اور اس قرآن کے مقابلے میں لوگوں کا جو رد عمل ہے وہ بھی دائرہ مشیت الٰہیہ میں ہے۔