آیت 98 وَہُوَ الَّذِیْٓ اَنْشَاَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ ظاہر ہے کہ تمام نوع انسانی ایک ہی جان سے وجود میں آئی ہے۔ اس سے حضرت آدم علیہ السلام بھی مراد ہوسکتے ہیں اور اگر نظریہ ارتقاء میں کوئی حقیقت تسلیم کرلی جائے تو پھر تحقیق کا یہ سفر امیبا Amoeba تک چلا جاتا ہے کہ اس ایک جان سے مختلف ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے انسان بنا۔ امیبا میں کوئی sex یعنی تذکیر و تانیث کا معاملہ نہیں تھا۔ دوران ارتقاء رفتہ رفتہ sex ظاہر ہوا تو خَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا النساء : 1 والا مرحلہ آیا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم نے اپنی کتاب قرآن اور علم جدید میں بہت عمدہ تحقیق کی ہے اور مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے بھی اس کی تصویب کی ہے۔ جن حضرات کو دلچسپی ہو کہ ایک جان سے تمام بنی نوع انسان کو پیدا کرنے کا کیا مطلب ہے ‘ وہ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔فَمُسْتَقَرٌّ وَّمُسْتَوْدَعٌ ط مستقر اور مستودع کے بارے میں مفسرین کے تین اقوال ہیں :پہلا قول یہ ہے کہ مستقر یہ دنیا ہے جہاں ہم رہ رہے ہیں اور مستودع سے مراد رحم مادر ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ مستقر آخرت ہے اور مستودع قبر ہے۔ قبر میں انسان کو عارضی طور پر امانتاً رکھا جاتا ہے۔ یہ عالم برزخ ہے اور یہاں سے انسان نے بالآخر اپنے مستقر آخرت کی طرف جانا ہے۔ تیسری رائے یہ ہے کہ مستقر آخرت ہے اور مستودع دنیا ہے۔ دنیا میں جو وقت ہم گزار رہے ہیں یہ آخرت کے مقابلے میں بہت ہی عارضی ہے۔