انسان کو اس دنیا میں جتنی مصیبتیں پیش آتی ہیں اتنی کسی بھی دوسرے جان دار کو پیش نہیں آتی۔ ایسا اس لیے ہوتاہے ،تاکہ آدمی پر ایسے حالات طاری کیے جائیں جب کہ اس کے اندر سے تمام مصنوعی خیالات ختم ہوجائیں اور آدمی اپنی اصل فطرت کو دیکھ سكے۔ چنانچہ جب بھی آدمی پرکوئی کڑی مصیبت پڑتی ہے تو وہ یکسو ہو کر خدا کو پکارنے لگتا ہے۔ اس وقت اس کے ذہن سے تمام بناوٹی پردے ہٹ جاتے ہیں۔ وہ جان لیتا ہے کہ اس دنیا میں انسان تمام تر عاجز ہے اور ساری قدرت صرف خدا کو حاصل ہے۔ مگر جیسے ہی مصیبت کے حالات ختم ہوتے ہیں وہ بدستور غفلت کا شکار ہو کر ویسا ہی بن جاتاہے جیسا کہ وہ پہلے تھا۔
شرک کی اصل حقیقت اللہ کے سوا کسی دوسری چیز پر اعتماد کرنا ہے اور توحید یہ ہے کہ آدمی کا سارا اعتماد اللہ پر ہوجائے۔ شرک کی ایک صورت وہ ہے جو بتوں اور دوسرے مظاہر پرستش کے ساتھ پیش آتی ہے۔ مگر شکر کے بجائے ناشکری کا رویہ اختیار کرنا بھی شرک ہے۔ شرک کی زیادہ عام صورت یہ ہے کہ آدمی خوداپنے کو بت بنالے، وہ اپنے آپ پر اعتماد کرنے لگے۔ آدمی جب اکڑ کر چلتا ہے تو گویا وہ اپنے جسم وجان پر اعتماد کررہا ہے۔ آدمی جب اپنی کمائی کو اپنی کمائی سمجھتا ہے تو گویا وہ اپنی قابلیت پر بھروسہ کررہا ہے۔ آدمی جب ايك حق کو نظر انداز کرتاہے تو گویا وہ سمجھتا ہے کہ میں جو بھی کروں، کوئی میرا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ آدمی جب کسی کے اوپر ظلم کرنے میں جری ہوتا ہے تو اس وقت اس کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ میںاس کے اوپر اختیار رکھتا ہوں، اس کے حق میں اپنی مَن مانی کرنے سے مجھے کوئی ر وکنے والا نہیں۔ یہ ساری صورتیں گھمنڈ کی صورتیں ہیں اور گھمنڈ خدا کے نزدیک سب سے بڑا شرک ہے۔ کیوں کہ یہ اپنے آپ کو خدا کے مقام پر رکھنا ہے۔
آدمی اگر اپنے حال پر سوچے تو وہ گھمنڈ نہ کرے۔ وہ ایسی ہوائوں سے گھرا ہوا ہے جو کسی بھی وقت طوفان کی صورت اختیار کرکے اس کی زندگی کو تہس نہس کرسکتی ہیں۔ وہ ایسی زمین پر کھڑا ہوا ہے جو کسی بھی لمحہ زلزلہ کی صورت میں پھٹ سکتی ہے۔ وہ جس سماج میں رہتاہے اس میں ہر وقت اتنی عداوتیں موجود رہتی ہیں کہ ایک چنگاری پورے سماج کو خاک وخون کے حوالے کرنے کے لیے کافی ہے۔