قُلْ
لَّوْ
اَنَّ
عِنْدِیْ
مَا
تَسْتَعْجِلُوْنَ
بِهٖ
لَقُضِیَ
الْاَمْرُ
بَیْنِیْ
وَبَیْنَكُمْ ؕ
وَاللّٰهُ
اَعْلَمُ
بِالظّٰلِمِیْنَ
۟
3

(آیت) ” قُل لَّوْ أَنَّ عِندِیْ مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِہِ لَقُضِیَ الأَمْرُ بَیْْنِیْ وَبَیْْنَکُمْ وَاللّہُ أَعْلَمُ بِالظَّالِمِیْنَ (58)

” کہو : اگر کہیں وہ چیز میرے اختیار میں ہوتی جس کے لئے تم جلدی مچا رہے ہو تو میرے اور تمہارے درمیان کبھی کا فیصلہ ہوچکا ہوتا ۔ مگر اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ ظالموں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جانا چاہئے ؟ “۔

جہاں تک انسان کا تعلق ہے ‘ صبر ‘ حلم ‘ بردباری ‘ اور مہلت دینے میں اس کی صلاحیت محدود ہے ۔ جب انسان انسان کے خلاف بغاوت اور سرکشی اختیار کرتا ہے تو انسان کی قوت برداشت ختم ہوجاتی ہے کیونکہ انسان دوسرے زیردست انسان کی جانب سے سرکشی کو برداشت ہی نہیں کرتا لیکن اللہ حلیم ‘ بردبار اور قوی ہے ‘ وہ عظمت والا ہے ۔

ذراکلام الہی پر غور کرو ۔ بارہا ایسا ہوتا ہے انسان بعض دوسرے انسانوں سے ایسے امور دیکھتا ہے کہ اس کا پیمانہ صبر لبریز ہوجاتا ہے اور اس کی قوت برداشت جواب دے جاتی ہے ۔ اس کے مقابلے میں دیکھو کہ انسان اللہ کی نافرمانی کرتا چلا جاتا ہے لیکن وہ پھر بھی اللہ کی زمین پر رہتے ہیں ‘ وہ اللہ کھانا وپینا فراہم کرتا ہے ‘ ان پر بارش برساتا ہے ‘ انکے لئے ہر طرف سے فراوانی کے دروازے کھول دیتا ہے اور اس کے لئے اس کے سوا کوئی اور چارہ ہی نہیں رہتا کہ وہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی بات کو دہرائے ۔ ایک بار وہ معرکہ جنگ میں تھے ۔ معرکہ اس قدر گرم تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہ دیتا تھا اور کفار نے فیصلہ کن حملہ کیا ہوا تھا ۔ ہر طرف سے بزن کا عالم تھا ۔ آپ نے فرمایا :” اے اللہ آپ کس قدم حلیم اور بردبار ہیں ! اے اللہ آپ کس قدر حلیم و بردبار ہیں ۔ غرض یہ اللہ کا حلم اور بردباری ہی ہے کہ نافرمانوں کو مہلت دئیے جا رہی ہے ۔

(آیت) ” وَاللّہُ أَعْلَمُ بِالظَّالِمِیْنَ (58)

” اور اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ ظالموں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جانا چاہئے ؟ “۔ وہ جانتے ہوئے مہلت دیتا ہے ۔ وہ حکمت کے ساتھ انہیں ڈھیل دیتا ہے اور علیم بھی ہے اور قدرت بھی رکھتا ہے کہ ان کے مطالبے کو بھی پورا کردے اور انہیں سخت عذاب سے بھی دوچار کر دے ۔ “

بات یہ ہو رہی تھی کہ اللہ ظالموں کے بارے میں خوب جانتے ہیں ‘ اور یہ کہ حقیقت الوہیت اور شان کبریائی کیا ہے ‘ اس مناسبت سے یہاں شان کبریائی کے ایک وسیع تر میدان ان کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے اور یہ وسیع تر میدان عالم غیب ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ اللہ کا علم تمام خفیہ باتوں پر محیط ہے ۔ یہاں اللہ کے علم کی وسعت کی عجیب اور منفرد تصور کشی کی جاتی ہے اور اس میدان میں اللہ کے علم کی وسعتوں کی طرف دور تک را ہوار خیال کو گامزن کیا جاتا ہے ۔