قُلْ
اِنِّیْ
عَلٰی
بَیِّنَةٍ
مِّنْ
رَّبِّیْ
وَكَذَّبْتُمْ
بِهٖ ؕ
مَا
عِنْدِیْ
مَا
تَسْتَعْجِلُوْنَ
بِهٖ ؕ
اِنِ
الْحُكْمُ
اِلَّا
لِلّٰهِ ؕ
یَقُصُّ
الْحَقَّ
وَهُوَ
خَیْرُ
الْفٰصِلِیْنَ
۟
3

آیت 57 قُلْ اِنِّیْ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّیْ یہ بیّنہ ہے کیا ؟ اس کی وضاحت سورة ھود میں آئے گی۔ جیسا کہ اس سے پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ ایک عام انسان کے لیے بَیِّنَہ دو چیزوں سے مل کر بنتی ہے ‘ انسان کی فطرت سلیمہ اور وحی الٰہی۔ فطرت سلیمہ اور عقل سلیم انسان کے اندر اللہ کی طرف سے ودیعت کردی گئی ہے جس کی بنا پر اس کو نیکی بدی اور اچھے برے کی تمیز فطری طور پر مل گئی ہے۔ اس کے بعد اگر کسی انسان تک نبی یا رسول کے ذریعے سے اللہ کی وحی بھی پہنچ گئی اور اس وحی نے بھی ان حقائق کی تصدیق کردی جن تک وہ اپنی فطرت سلیمہ اور عقل سلیم کی راہنمائی میں پہنچ چکا تھا ‘ تو اس پر حجت تمام ہوگئی۔ اس طرح یہ دونوں چیزیں یعنی فطرت سلیمہ اور وحی الٰہی مل کر اس شخص کے لیے بیّنہ بن گئیں۔ پھر اللہ کا رسول اور وحی الٰہی دونوں مل کر بھی لوگوں کے حق میں بَیِّنَہبن جاتے ہیں۔ خود رسول ﷺ کے حق میں بَیِّنَہیہ ہے کہ آپ ﷺ اپنی فطرت سلیمہ اور عقل سلیم کی راہنمائی میں جن حقائق تک پہنچ چکے تھے وحی الٰہی نے آکر ان حقائق کو اجاگر کردیا۔ چناچہ حضور ﷺ سے کہلوایا جا رہا ہے کہ آپ ان کو بتائیں کہ میں کوئی اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں نہیں مار رہا ‘ میں تو اپنے رب کی طرف سے بیّنہ پر ہوں۔ میں جس راستے پر چل رہا ہوں وہ بہت واضح اور روشن راستہ ہے ‘ اور مجھ پر اس کی باطنی حقیقت بھی منکشف ہے۔وَکَذَّبْتُمْ بِہٖط مَا عِنْدِیْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِہٖ ط۔وہ لوگ جلدی مچا رہے تھے کہ لے آئیے ہمارے اوپر عذاب۔ دس برس سے آپ ہمیں عذاب کی دھمکیاں دے رہے ہیں ‘ اب جب کہ ہم نے آپ کو ماننے سے انکار کردیا ہے تو وہ عذاب ہم پر آکیوں نہیں جاتا ؟ جواب میں حضور ﷺ سے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ انہیں صاف الفاظ میں بتادیں کہ عذاب کا فیصلہ میرے اختیار میں نہیں ہے ‘ وہ عذاب جب آئے گا ‘ جیسا آئے گا ‘ اللہ کے فیصلے سے آئے گا اور جب وہ چاہے گا ضرور آئے گا۔