حق کی بے آمیز دعوت ہمیشہ اپنے ماحول میں اجنبی دعوت ہوتی ہے۔ ایک طرف مروجہ دین ہوتاہے جس کو تمام اجتماعی اداروں میں غلبہ کا مقام حاصل ہوتا ہے۔ صدیوں کی روایات اس کو باوزن بنانے کے لیے اس کی پشت پر موجود ہوتی ہیں۔ دوسری طرف حق کی دعوت ہوتی جو ان تمام اضافی خصوصیات سے خالی ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں لوگوں کے لیے سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ جس دین کو اتنا درجہ اور اتنی مقبولیت حاصل ہو وہ دین خدا کی پسند کے مطابق نہ ہوگا۔ لوگ فرض کرلیتے ہیں کہ مروجہ دین کا اتنا پھیلاؤ اسی ليے ممکن ہوسکا کہ خدا کی مرضی اس کے شامل حال تھی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کو یہ پھیلاؤ کبھی حاصل نہ ہوتا۔ وہ کہتے ہیں کہ جس دین کو خدا کی دنیا میں ہر طرف بلند مقام حاصل ہووہ خدا کا پسندیدہ دین ہوگا یا وہ دین جس کو خدا کی دنیا میں کہیں کوئی مقام حاصل نہیں۔
مگر حق وباطل کا فیصلہ حقیقی دلائل پر ہوتا ہے، نہ کہ اس قسم کے قیاسات پر۔ خدا نے اس دنیا کو امتحان گاہ بنایا ہے۔یہاں آدمی کو یہ موقع ہے کہ وہ جس چیز کو چاہے اختیار کرے اور جس چیز کو چاہے اختیار نہ کرے۔ یہ معاملہ تمام تر آدمی کے اپنے اوپر منحصر ہے۔ ایسی حالت میں کسی چیز کا رواج عام اس کے برحق ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا۔ کوئی چیز برحق ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ دلائل کی بنیاد پر ہوگا، نہ کہ رواجی عمل کی بنیاد پر۔
دنیا کو اللہ نے امتحان گاہ بنایا۔ انسان پر اپنی مرضی جبراً مسلط کرنے کے بجائے یہ طریقہ اختیار کیا کہ انسان کو صحیح اور غلط کا علم دیا اور یہ معاملہ انسان کے اوپر چھوڑدیا کہ وہ صحیح کو لیتاہے یا غلط کو۔ اس کامطلب یہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں دلیل(حجت) خدا کی نمائندہ ہے۔ آدمی جب ایک سچی دلیل کے آگے جھکتاہے تو وہ خدا کے آگے جھکتاہے۔اور جب وہ ایک سچی دلیل کو ماننے سے انکار کرتاہے ہو تو وہ خدا کو ماننے سے انکار کرتاہے۔
جب آدمی دلیل کے آگے نہیں جھکتا تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی خواہش سے اوپر اٹھ نہیں پاتا۔ وہ باطل کو حق کہنے کے ليے کھڑا ہوجاتاہے تاکہ اپنے عمل کو جائز ثابت کرسکے۔ اس کی ڈھٹائی اس کو یہاںتک لے جاتی ہے کہ وہ خدا کی نشانیوں کو نظر انداز کردے۔ وہ اس بات سے بے پروا ہوجاتاہے کہ خدا اس کو بالآخر پکڑنے والا ہے۔ وہ دوسری دوسری چیزوں کو وہ اہمیت دیتاہے جو اہمیت صرف خدا کو دینا چاہيے۔