You are reading a tafsir for the group of verses 6:148 to 6:149
سَیَقُوْلُ
الَّذِیْنَ
اَشْرَكُوْا
لَوْ
شَآءَ
اللّٰهُ
مَاۤ
اَشْرَكْنَا
وَلَاۤ
اٰبَآؤُنَا
وَلَا
حَرَّمْنَا
مِنْ
شَیْءٍ ؕ
كَذٰلِكَ
كَذَّبَ
الَّذِیْنَ
مِنْ
قَبْلِهِمْ
حَتّٰی
ذَاقُوْا
بَاْسَنَا ؕ
قُلْ
هَلْ
عِنْدَكُمْ
مِّنْ
عِلْمٍ
فَتُخْرِجُوْهُ
لَنَا ؕ
اِنْ
تَتَّبِعُوْنَ
اِلَّا
الظَّنَّ
وَاِنْ
اَنْتُمْ
اِلَّا
تَخْرُصُوْنَ
۟
قُلْ
فَلِلّٰهِ
الْحُجَّةُ
الْبَالِغَةُ ۚ
فَلَوْ
شَآءَ
لَهَدٰىكُمْ
اَجْمَعِیْنَ
۟
3

آیت ” نمبر 148 تا 149۔

افکار اسلامی کی تاریخ میں مسئلہ جبروقدر پر طویل مباحث رہے ہیں۔ اہل سنت اور معتزلہ اور مرجیہ اس میں باہم دست و گریبان رہے ہیں ۔ یونانی فلسفہ اور یونانی منطق جب عالم اسلام میں آئی تو اس نے بھی ان مباحث کو متاثر کیا ۔ پھر عیسائیوں کے فلسفہ لاہوت نے بھی اثرات ڈالے ۔ اور اس کو اس قدر پیچیدہ بنا دیا کہ یہ اسلام کے واضح اور حقیقت پسندانہ تصور کے لئے ناقابل فہم بنا گیا ۔ اگر اس مسئلے پر قرآن کے سنجیدہ ‘ حقیقت پسندانہ اور ڈائرکٹ انداز میں غور کیا جاتا تو یہ جدل وجدال نہ ہوتا اور یہ بحث وہ رخ اختیار نہ کرتی جو اس نے اختیار کیا ۔

جب ہم مشرکین کے قول کو پڑھتے ہیں اور اس کو قرآن کریم نے جس سادہ اور واضح انداز میں رد کیا اسے دیکھتے ہیں تو یہ بہت ہی سادہ اور قابل فہم نظر آتا ہے ۔

آیت ” سَیَقُولُ الَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ لَوْ شَاء اللّہُ مَا أَشْرَکْنَا وَلاَ آبَاؤُنَا وَلاَ حَرَّمْنَا مِن شَیْْء ٍ “۔ (6 : 148)

” یہ مشرک لوگ ضرور کہیں گے کہ ” اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھہراتے ۔ “

ان کا مقصد یہ تھا کہ انہوں نے جو شرک کیا ‘ ان کے آبا نے جو شرک کیا یا انہوں نے از خود جن چیزوں کو حرام قرار دیا اللہ نے انہیں حرام قرار دیا تھا اور ان کا یہ دعوی کرنا کہ یہ اللہ کی جانب سے مقرر کردہ شریعت ہے اور بلادلیل یہ دعوی کرنا کہ یہ سب امور اللہ کی مشیت کے مطابق چل رہے ہیں۔ اگر اللہ نہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے ۔ اور نہ ان چیزوں کو حرام قرار دیتے ۔ یہ سب بیکار باتیں ہیں۔

اب دیکھئے کہ قرآن کریم ان کے اس فلسفے کی تردید کس طرح کرتا ہے ۔ قرآن کریم صرف یہ کہتا ہے کہ یہ لوگ بعینہ اسی طرح جھوٹ بول رہے ہیں جس طرح ان سے پہلے لوگوں نے جھوٹ بولا ۔ اور اس سے پہلے جن لوگوں نے جھوٹ بولا انہوں نے تو اپنے جھوٹ کا مزہ چکھ لیا ہے اور اب یہ نئے مکذبین آگئے ہیں اور اللہ کا عذاب ان کے انتظار اور استقبال میں ہے ۔

آیت ” ٍ کَذَلِکَ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِم حَتَّی ذَاقُواْ بَأْسَنَا “۔ (6 : 148)

” ایسی ہی باتیں بنا کر ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی حق کو جھٹلایا یہاں تک کہ آخر کار ہمارے عذاب کا مزہ انہوں نے چکھ لیا ۔ “

یہ وہ تنبیہ ہے جو سوچنے والے کو جھنجوڑ کر رکھ دیتی ہے ۔ غافل سے غافل انسان بھی ہوش میں آجاتا ہے اور انجام کو سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔

اب ایک دوسری تنبیہ ہے جس کے ذریعے ان کی فکری اصلاح مطلوب ہے ۔ یہ کہ اللہ نے کچھ احکامات واوامر دیئے ہیں اور بعض چیزوں سے منع کیا ہے اور انہیں حرام قرار دیا ہے ۔ ان چیزوں کے بارے میں وہ یقینی اور ناقابل شک علم حاصل کرسکتے ہیں ۔ رہی اللہ کی مشیت اور اس کا نظام تو وہ ایک پوشیدہ نظام ہے اور اس کی اصل حقیقت تک پہنچنا انسان کی قوت مدرکہ کے لئے کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ وہ کس طرح جان سکتے ہیں کہ اللہ کی مشیت کیا ہے ۔ اور جب انسان اللہ کے نظام قضا وقدر کا ادراک ہی نہیں کرسکتا تو وہ کسی کے فعل کو کس طرح نظام قضا وقدر کی طرف منسوب کرسکتا ہے ۔

آیت ” قُلْ ہَلْ عِندَکُم مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوہُ لَنَا إِن تَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ أَنتُمْ إَلاَّ تَخْرُصُونَ (148)

” ان سے کہو ’ ” کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے جسے ہمارے سامنے پیش کرسکو ؟ تم تو محض گمان پر چل رہے ہو اور نری قیاس آرائیاں کرتے ہو ۔ “

اللہ نے جو احکام دیئے یا اس کی جانب سے جو منہیات ہیں ‘ وہ معلوم ہیں اور ان کے بارے میں قطعی علم ہمارے پاس قرآن میں موجود ہے ۔ سوال یہ ہے کہ یہ لوگ ان قطعی معلومات کو چھوڑ کر محض ظن وتخمین کے سراب کے پیچھے کیوں دوڑتے ہیں اور اس وادی میں کیوں قدم رکھتے ہیں جس کے نشیب و فراز سے وہ واقف نہیں ہیں۔

میں سمجھتا ہوں مسئلہ جبروقدر میں یہ ایک فیصلہ کن بات ہے ۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اس بات کا مکلف نہیں بناتا کہ وہ اللہ کے نظام قضا وقدر کا علم حاصل کریں اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں ۔ اللہ کی جانب سے لوگوں پر صرف یہ فریضہ عائد کیا گیا ہے کہ وہ اللہ کے اوامر اور منہیات کا علم حاصل کریں اور اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالیں ۔ جب وہ اس سلسلے میں سعی شروع کریں گے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اللہ انہیں راہ ہدایت پر ڈال دیں گے اور ان کے دل اسلام کے لئے کھل جائیں گے ۔ مسئلہ قضا وقدر میں یہ ایک حقیقت پسندانہ اور عملی سوچ ہے اور انسان کے مسائل کے حل کے لئے کافی ہے یہ آسان بھی ہے ‘ واضح بھی ہے اور اس میں کوئی بحث و مباحثہ اور جدل وجدال نہیں ہے ۔ نہ تحکم اور سینہ زوری ہے ۔

اگر اللہ چاہتا تو آغاز ہی سے انسان کو اس طرح پیدا کرتا کہ وہ ہدایت کی راہ کے سوا کسی دوسری راہ پر چل ہی نہ سکتا یا اللہ انہیں مجبور کردیتا کہ وہ ہدایت اختیار کریں یا اللہ ان کے دلوں میں از خود ہدایت ڈال دیتا اور ان پر ہدایت کے لئے جبری ذرائع اختیار کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی لیکن اللہ جل شانہ یہ نہیں چاہتے تھے ۔ اللہ کی مشیت یہ تھی کہ آدم کو قدرت واختیار دے کر اسے آزمائے اور یہ اختیار اس قدر ہو کہ وہ ہدایت وضلالت میں سے جس راہ پر چاہے اختیار کرے ۔ انسان جب کسی راہ کا آزادانہ ارادہ کرے تو اللہ پھر اس کی مدد کرے ‘ ہدایت کی طرف یا ضلالت کی طرف ‘ یعنی جو ضلالت کی طرف اشارہ کرے اس کے لئے وہ راہ بھی آسان ہو ۔ یہی وہ طریقہ ہے جس کے مطابق اس کی سنت جاری رہتی ہے ۔

آیت ” قُلْ فَلِلّہِ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُ فَلَوْ شَاء لَہَدَاکُمْ أَجْمَعِیْنَ (149)

” پھر کہو (تمہاری حجت کے مقابلے میں) ” حقیقت رس حجت تو اللہ کے پاس ہے ‘ بیشک اللہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا ۔ “

اب یہ مسئلہ واضح ہوجاتا ہے اور قرآن اسے اس انداز میں پیش کرتا ہے کہ ہر انسان اسے بسہولت سمجھ سکتا ہے ۔ رہی وہ علمی کشتیاں جو اس مسئلے پر ہوتی رہی اور وہ طویل جدل وجدال جو ہماری تاریخ کا حصہ ہے تو وہ اسلامی احساس اور اسلامی منہاج کے ساتھ لگا نہیں کھاتا ۔ نہ صرف یہ کہ اسلامی سوچ اسے قبول نہیں کرتی بلکہ یونانی فلسفے اور عیسائیوں کے ہاں لاہوتی مباحث بھی آج تک کسی نتیجے تک نہیں پہنچ پائے ۔ اس لئے کہ یہ مباحث جس انداز سے چلے وہ اس مسئلے کے مزاج کے خلاف تھا ۔

ہر حقیقت کی جو نوعیت ہوتی ہے اس کے مطابق ہی اسے لیا جاتا ہے اور اس پر بحث کے لئے اس کے حسب حال اسلوب اپنایا جاتا ہے ۔ جہاں تک مادی حقائق کا تعلق ہے ان کو بذریعہ تجربہ معلوم کیا جاسکتا ہے اور ریاضی حقائق کو ذہنی معروضات کے ذریعے معلوم کیا جاتا ہے لیکن جو حقائق مادی دنیا سے وراء ہیں ان کا اپنا منہاج بحث ہوتا ہے ۔ جیسا کہ ہم نے اوپر کہا یہ حقائق عملی نوعیت رکھتے ہیں اور انہیں عملی انداز میں اور حقیقت پسندانہ منہاج بحث کے ساتھ لینا چاہتے ۔ ان کو محض دینی مفروضوں کے انداز میں نہیں لینا چاہیے جس طرح ان کو پہلے بھی لیا گیا اور آج بھی لیا جا رہا ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ دین اسلام میں اس دنیا میں اس لئے آیا تھا کہ یہاں ایک عملی صورت حالات پیدا کر دے ۔ وہ احکام اور منہیات پر مشتمل ہے اور یہ احکام اور منہیات واضح ہیں ۔ ان کے بارے میں نامعلوم مشیت الہیہ کو زیر بحث لانے کا مقصد یہ ہوگا کہ ہم کسی بےکنار صحرا میں بلا دلیل پڑجائیں اور اپنی قوتوں کو لاحاصل جدل وجدال اور بادیہ پیمائی میں صرف کردیں ۔

اب اللہ تعالیٰ حضرت نبی کریم ﷺ کو ہدایت کرتے ہیں ۔ کہ آپ اس قانون سازی میں اللہ کو بطور گواہ پیش فرمائیں ۔ اس طرح جس طرح اس سے پہلے حضور کو ہدایت ہوئی تھی کہ آپ اللہ کے اقتدار اعلی اور حاکمیت کے مسئلے میں بھی اللہ کی ذات کو بطور شہادت پیش فرمائیں ۔ اس سورة کے آغاز میں یہ فرمایا گیا تھا ۔

آیت ” قُلْ أَیُّ شَیْْء ٍ أَکْبَرُ شَہَادۃً قُلِ اللّہِ شَہِیْدٌ بِیْْنِیْ وَبَیْْنَکُمْ وَأُوحِیَ إِلَیَّ ہَذَا الْقُرْآنُ لأُنذِرَکُم بِہِ وَمَن بَلَغَ أَئِنَّکُمْ لَتَشْہَدُونَ أَنَّ مَعَ اللّہِ آلِہَۃً أُخْرَی قُل لاَّ أَشْہَدُ قُلْ إِنَّمَا ہُوَ إِلَـہٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِیْ بَرِیْء ٌ مِّمَّا تُشْرِکُونَ (19)

” ان سے پوچھو کس کی شہادت بڑھ کر ہے ؟ کہو میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے ۔ یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے ‘ سب کو متنبہ کر دوں ۔ کیا تم لوگ واقعی یہ شہادت دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہیں ؟ کہو میں تو اس کی شہادت ہر گز نہیں دے سکتا ۔ کہو خدا تو وہی ہے اور میں اس شرک سے قطعی بیزار ہوں جس میں تم مبتلا ہو۔ “

اور یہاں اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا :