شریعتِ خداوندی میں اصل محرمات ہمیشہ وہی رہے ہیں جو اوپر کی آیت میں بیان ہوئے۔ یعنی مردار، بہایا ہوا خون، سور کا گوشت اور وہ جانور جس کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔ اس کے سوا اگر کچھ چیزیں حرام ہیں تو وہ انھیں کی تشریح وتفصیل ہیں۔
مگر اسی کے ساتھ اللہ کی ایک سنتِ تحریم اور ہے۔ وہ یہ کہ جب کوئی حامل کتاب قوم اطاعت کے بجائے سرکشی کا طریقہ اختیار کرتی ہے تو اس کی سرکشی کی سزا کے طورپر اس کو نئی نئی مشکلات میں ڈال دیا جاتاہے۔ اس پر ایسی چیزیں حرام کردی جاتی ہیں جو اصلاً شریعت خداوندی میں حرام نہ تھیں۔
اس حرمت کی شکل کیا ہوتی ہے۔ اس کی ایک شکل یہ ہوتی ہے کہ اس قوم کے اندر ایسے پیشوا اٹھتے ہیں جو دین کی حقیقت سے بالکل خالی ہوتے ہیں۔ وہ صرف ظاہری دین داری سے واقف ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتاہے کہ جو اہتمام دین کی معنوی حقیقتوں میں کرنا چاہیے وہی اہتمام وہ ظاہری آداب وقواعد میں کرنے لگتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں ظواہرِ دین میں غیر ضروری موشگافیاں وجود میں آتی ہیں۔ ایسے لوگ دین کے خود ساختہ ظاہری معیار وضع کرتے ہیں۔ وہ غلو اور تشدد کرکے سادہ حکم کو پیچیدہ اور جائز چیز کو ناجائز بنا دیتے ہیں۔
مثلاً یہود کے اندر جب سرکشی آئی تو ان کے درمیان ایسے علماء اٹھے جنھوں نے اپنی موشگافیوں سے یہ قاعدہ بنایا کہ کسی چوپایہ کے حلال ہونے کے ليے دوشرطیں بیک وقت ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ اس کے پاؤں چرے ہوئے ہوں، دوسري یہ کہ وہ جگالی کرتاہو۔ ان میں سے کوئی ایک شرط بھی اگر نہ پائی جائے تو وہ جانور حرام سمجھا جائے گا۔ اس خود ساختہ شرط کی وجہ سے اونٹ، سافان (cony)اور خرگوش جیسی چیزیں بھی خواہ مخواہ حرام قرار پا گئیں۔ اسی طرح ’’ناخن‘‘ کی تشریح میں غلو کرکے انھوںنے غیر ضروری طورپر شتر مرغ، قاز اور بط وغیرہ کو اپنے ليے حرام کرلیا۔ اس قسم کی غیر فطری بندشوں نے ان کے ليے وہاں تنگی پیدا کردی جہاں خدا نے ان کے ليے فراخی رکھی تھی۔
حق کو نہ ماننے کے بعد آدمی فوراً خدا کی پکڑ میں نہیں آتا۔ وہ بدستور اپنے کو آزاد اور بھر پورپاتا ہے۔ اس بنا پر اکثر وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ حق کو نہ ماننے سے اس کا کچھ بگڑنے والا نہیں۔ وہ بھول جاتاہے کہ وہ خدا كے منصوبهٔ تخليق كي حكمت كي وجه سے بچا ہوا ہے۔ خدا آدمی کی سرکشی کے باوجود اس کو آخری حد تک موقع دیتا ہے۔ بالآخر جب وہ اپنی روش کو نہیں بدلتا تو اچانک خدا کا عذاب اس کو اپنی پکڑ میں لے لیتا ہے۔ کبھی دنیا میں اور کبھی دنیا اور آخرت دونوں میں۔