فَاِنْ
كَذَّبُوْكَ
فَقُلْ
رَّبُّكُمْ
ذُوْ
رَحْمَةٍ
وَّاسِعَةٍ ۚ
وَلَا
یُرَدُّ
بَاْسُهٗ
عَنِ
الْقَوْمِ
الْمُجْرِمِیْنَ
۟
3

آیت ” نمبر 147۔

اس کا دامن رحمت بہت وسیع ہے اور یہ رحمت ہمارے لئے بھی وسیع ہے اور اس سے پہلے کے مومنین کے لئے بھی وسیع تھی اور مومنین کے علاوہ تمام مخلوقات کے لئے بھی اس میں وسعت ہے کیونکہ وہ تو محسن ہے ۔ دوست کے لئے بھی رحیم ہے اور دشمن کے لئے بھی رحیم ہے ۔ اگر مجرم عذاب کے مستحق ہوں تو بھی وہ نفاذ عذاب میں جلدی نہیں کرتا اور یہ اس کی شان کریمی ہے اور اس ڈھیل کے عرصہ میں کئی لوگ توبہ کرلیتے ہیں اور اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں لیکن ان کا عذاب نہایت ہی سخت ہے ۔ صرف اس کا حلم ہی اسے اہل ایمان سے رد کرسکتا ہے ۔ اللہ کے نظام فضا وقدر میں جو وقت متعین ہے اس وقت تک ہی وہ مؤخر ہو سکتا ہے ۔

اس آیت میں اگرچہ شمع امید کو بھی روشن رکھا گیا ہے اور انسان کو مایوس نہیں کیا گیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس میں بھی تنبیہ بھی موجود ہے کہ وہ حد سے نہ گزرے اور اللہ وہ ذات ہے جس نے لوگوں کے دل و دماغ کو پیدا کیا ہے اور وہ جانتا ہے کہ ان کے لئے یہ دونوں باتیں ضروری ہیں تاکہ وہ ڈر جائیں ‘ اپنے رویے پر غور کریں اور دعوت اسلامی کو قبول کرلیں ۔

جب بات یہاں تک پہنچتی ہے اور اہل ضلالت کے لئے کوئی مفر نہیں رہتا ۔ جب ان کے پاس کوئی استدلال نہیں رہتا اور تمام بھاگنے کے راستے بند ہوجاتے ہیں تو قرآن کریم ان کے فرار کے آخری راستے کو بھی بند کردیتا ہے ۔ ان کے گمراہانہ تصورات ‘ شرکیہ عقائد اور بےمعنی اعمال کے لئے ایک راہ موجود تھی ۔ وہ کہتے تھے کہ وہ اپنا کوئی اختیار نہیں رکھتے ‘ وہ تو مجبور ہیں ۔ اگر اللہ چاہتا تو وہ نہ ایسے تصورات رکھتے ‘ نہ غلط عقائد ان کے ہوتے اور نہ وہ بداعمالیوں میں مبتلا ہوتے ۔ اگر اللہ چاہتا تو وہ ہمیں ان باتوں سے روک دیتا ۔ وہ تو قادر مطلق ہے اور اس کی قدرت پر کوئی قید نہیں ہے ۔