عربوں میں گوشت اور دودھ وغیرہ کے ليے جو جانور پائے جاتے تھے ان میں سے چار زیادہ معروف تھے۔ بھیڑ بکری اور اونٹ گائے۔ ان کے بارے میں انھوں نے طرح طرح کے تحریمی قاعدے بناليے تھے۔ مگر ان تحریمی قاعدوں کے پیچھے اپنے مشرکانہ رواجوں کے سوا کوئی دلیل ان کے پاس نہ تھی۔ بھیڑ اور بکری اور اونٹ اور گائے، خواہ نر ہوں یا مادہ، عقلی طورپر کوئی سبب حرمت ان کے اندر موجود نہیں ہے، ان کا تمام کا تمام گوشت انسان کی بہترین غذا ہے۔ ان میں کوئی ایسی ناپاک عادت بھی نہیں جو ان کے بارے میں انسانی طبیعت میں کراہت پیدا کرتی ہو۔ آسمان سے اترے ہوئے علم میں بھی ان کی حرمت کا ذکر نہیں۔
پھر کیوں ایسا ہوتا ہے کہ ان حیوانات کے بارے میں لوگوں کے اندر طرح طرح کے تحریمی قاعدے بن جاتے ہیں۔ اس کی وجہ شیطانی ترغیبات ہیں۔ انسان کے اندر فطری طورپر خدا کا شعور اور حر ام وحلال کا احساس موجود ہے۔ آدمی اپنے اندرونی تقاضے کے تحت کسی ہستی کو اپنا خدا بنانا چاہتا ہے اور چیزوں میں جائز ناجائز کا فرق کرنا چاہتا ہے۔ شیطان اس حقیقت کو خوب جانتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ انسان کو اگر سادہ حالات میں عمل کرنے کا موقع ملا تو وہ فطرت کے صحیح راستہ کو پکڑ لے گا۔ اس ليے وہ فطرتِ انسانی کو کند کرنے کے لیے طرح طرح کے غلط رواج قائم کرتاہے۔ وہ خدا کے نام پر کچھ فرضی خدا گھڑتا ہے۔ وہ حرام وحلال کے نام پر کچھ بے بنیاد محرمات وضع کرتاہے۔ اس طرح شیطان یہ کوشش کرتا ہے کہ آدمی انھیں فرضي چیزوں میں الجھ کر رہ جائے اور اصلی سچائی تک نہ پہنچے۔ وہ سیدھے راستے سے بھٹک چکا ہو۔ مگر بظاہر اپنے کو چلتا ہوا دیکھ کر یہ سمجھے کہ میں ’’راستہ‘‘ پر ہوں۔ حالاں کہ وہ ایک ٹیڑھی لکیر ہو، نہ کہ سیدھا راستہ۔
جو لوگ اس طرح شیطانی بہکاوے کا شکار ہوں وہ خدا کی نظر میں ظالم ہیں۔ ان کو خدا نے سمجھ دی تھی جس سے وہ حق وباطل میں تمیز کرسکتے تھے۔ مگر ان کے تعصبات ان کے لیے پردہ بن گئے۔ سمجھنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود وه سمجھنے سے دور رہے۔