آیت ” نمبر 145 تا 146۔
” ابن جریر طبری لکھتے ہیں ” اللہ اپنے نبی سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں اے محمد ! ان لوگوں سے یہ کہہ دیں جنہوں نے اللہ کی پیدا کردہ فصلوں اور مویشیوں میں ایک حصہ اللہ کے لئے مخصوص کردیا ہے اور ایک حصہ اپنے ان معبودوں کے لئے مخصوص کردیا ہے جو خود انہوں نے اللہ کے شریک قرار دیئے ہیں ۔ جو یہ کہتے ہیں کہ یہ مویشی اور یہ فصل اور لوگوں کے ممنوع ہے اور اسے صرف وہی لوگ استعمال کرسکتے ہیں جن کے بارے میں ہم چاہیں یہ قانون وہ بزعم خود بناتے ہیں جو بعض جانوروں پر بار برداری کو حرام کرتے ہیں اور بعض جانور ایسے ہیں جن پر ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا جائز نہیں سمجھتے ۔ وہ بعض جانوروں کے پیٹ میں جنین کو اپنی عورتوں اور بیویوں کے لئے حرام قرار دیتے ہیں اور مردوں کے لئے حلال قرار دیتے ہیں ۔ وہ اللہ کے پیدا کردہ بعض دوسرے ارزاق کو حرام قرار دیتے ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ وہ یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ یہ قوانین و ضوابط اللہ کے بنائے ہوئے ہیں ۔ ان کے یہ کام شرک کے زمرے میں آتے ہیں ۔ ان سے پوچھو ! کہ آیا اللہ کی جانب سے کوئی رسول آیا تھا جس نے ان چیزوں کو حرام قرار دیا تو بتاؤ وہ کون سا رسول تھا یا اللہ نے جب ان چیزوں کو حرام قرار دیا تو تم خود اس مجلس میں موجود تھے ۔ تم نے خود اللہ سے سنا ہے کہ یہ چیزیں حرام ہیں۔ اگر تم ایسا دعوی کرو تو بادی النظر میں یہ جھوٹا ہوگا اور تم عقلا ایسا دعوی کر ہی نہیں سکتے ۔ اگر تم ایسا دعوی کرو تو تمام جہان تمہاری تکذیب کر دے گا ۔ رہا یہ میرا معاملہ ‘ تو میرے اوپر جو کتاب قرآن نازل ہو رہی ہے اس میں کسی شخص پر کوئی ایسی چیز حرام نہیں ہے جس کو تم حرام قرار دیتے ہو اور بزعم کود ” تم “ حرام قرار دیتے ہو ۔ میرے اوپر اللہ نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ یہ ہیں کہ کوئی جانور مردار ہوگیا ہو ‘ بغیر ذبح کے مر گیا ہو یا بہایا ہوا خون ہو ‘ یا خنزیر کا گوشت حرام ہے اس لیے کہ یہ ناپاک ہے ‘ یا وہ گوشت جو فسق کا ہو ‘ مثلا وہ ذبیحہ جو مشرکین بتوں پر ذبح کرتے ہیں ‘ اپنے بتوں اور آستانوں پر اور ان پر بتوں کا نام لیا گیا ہو ‘ یہ ذبح اسلام میں فسق تصور ہوتا ہے ‘ اسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے اور ایسا کرنے کو ممنوع قرار دیا ہے ۔ یہ مردار تصور ہوتا ہے اور اس کا کھانا حرام ہے ۔ “
یہ اللہ کی جانب سے اعلان ہے ان مشرکین کے لئے جو حضور اکرم ﷺ کے ساتھ اور آپ کے ساتھیوں کے ساتھ مردار کی حلت و حرمت کے مسئلے میں مجادلہ کرتے تھے کہ وہ جن چیزوں میں مجادلہ کرتے ہیں ان میں سے بعض اشیاء تو حرام ہیں جنہیں اللہ نے حرام قرار دیا ہے اور بعض اشیاء حلال ہیں جنہیں اللہ نے قرار دیا ہے ۔ ان حلال چیزوں کی حرمت کی نسبت جو وہ اللہ کی طرف کرتے ہیں اس میں وہ جھوٹے ہیں ۔ ابن جریر آیت (فمن اضطر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ) کی تفسیر میں کہتے ہیں : ” اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ نے مردار ‘ خون ‘ لحم خنزیر یا بتوں کے نام پر ذبح ہونے والے جانوروں کو حرام قرار دیا لیکن اگر کوئی اس کے کھانے پر مجبور ہوجائے ‘ بطور حکم عدولی نہ کھا رہا ہو اور یہ نہ ہو کہ حالت اضطرار میں نہ ہو اور اسی طرح وہ جان بوجھ کر حدود سے تجاوز نہ کر رہا ہو اور حد ضرورت کے اندر کھا رہا ہومثلا صرف اس قدر کھا رہا ہو کہ اس کی زندگی بچ جائے ‘ اس سے زیادہ نہ کھا رہا ہو تو اس قدر کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے ‘ بیشک اللہ غفور ورحیم ہے اور وہ اس کی پردہ پوشی کرنے والا ہے ۔ اس پر اس کو کوئی سزا نہ ہوگی اور گناہ بخش دیا جائے گا ‘ یہ ہے مفہوم غفور کا ۔ اور رحیم اس لئے ہے کہ اس نے لوگوں پر رحم کرکے بوقت مجبوری جواز کا حکم دیا ۔ ورنہ اگر وہ چاہتا تو وہ ان چیزوں کے استعمال کو ہر حال میں حرام کردیتا۔ “
رہی وہ مقدار جو ان چیزوں سے کھائی جاسکتی ہے تو اس بارے میں فقہاء کے درمیان اختلافات ہیں ۔ ایک رائے یہ ہے کہ وہ صرف اسی قدر کھائے گا جس سے جان بچ جائے ‘ دوسری رائے یہ ہے کہ بقدر کفایت اور سیر ہوجانے تک کھا سکتا ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ ایک بار کھانے کے علاوہ دوسرے اوقات مجبور کے لئے ذخیرہ بھی کرسکتا ہے ۔ اگر اسے یہ ڈر ہو کہ آئندہ بھی رزق حلال نہ ملے گا ‘ مین ان اختلافات کی تفصیلات میں نہیں جاتا ۔ اس موضوع پر اسی قدر کافی ہے ۔
رہے یہودی تو ان پر وہ تمام جانور حرام کردیئے گئے تھے جن کے ناخن تھے ۔ یعنی وہ تمام حیوانات جن کے پاؤں پھاڑے ہوئے نہیں ہیں مثلا اونٹ ‘ شترمرغ ‘ مرغابی اور بطخ ۔ ان پر گائے اور بکریوں کی چربی بھی حرام کردی گئی تھی ‘ صرف پیٹھ کی چربی جائز تھی یا وہ چربی جو آنتوں کے ساتھ لگی ہوئی تھی یا جو ہڈیوں سے ملی ہوئی تھی ۔ یہ چیزیں ان پر بطور سزا حرام کی گئیں اور یہ سزا ان کو اس بغاوت کے نتیجے میں دی گئی جو وہ اللہ کے احکام اور قوانین سے کرتے تھے ۔
آیت ” وَعَلَی الَّذِیْنَ ہَادُواْ حَرَّمْنَا کُلَّ ذِیْ ظُفُرٍ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْْہِمْ شُحُومَہُمَا إِلاَّ مَا حَمَلَتْ ظُہُورُہُمَا أَوِ الْحَوَایَا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ذَلِکَ جَزَیْْنَاہُم بِبَغْیِہِمْ وِإِنَّا لَصَادِقُونَ (146)
ٍ ” اور جن لوگوں نے یہودیت اختیار کی ان پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے تھے اور گائے اور بکری کی چربی بھی بجر اس کے کہ جو ان کی پیتھ یا آنتوں سے لگی ہوئی ہو ‘ یا ہڈی سے لگی رہ جائے ۔ یہ ہم نے ان کی سرکشی کی سزا انہیں دی تھی ‘ اور یہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں بالکل سچ کہہ رہے ہیں “۔
قرآن کریم نے صراحت کے ساتھ وہ سبب بتا دیا جس کی وجہ سے ان پر یہ چیزیں حرام کردی گئی تھیں اور یہ حرمت یہودیوں کے ساتھ مخصوص تھی اور یہی حقیقی سبب تھا ۔ وہ سبب نہ تھا جو وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل یعنی حضرت یعقوب نے خود اپنے اوپر یہ چیزیں حرام کرلی تھیں اور اسرائیل کی اطاعت میں یہ لوگ بھی بدستور ان چیزوں کو اپنے اوپر حرام کئے ہوئے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اشیاء حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے لئے مباح اور حلال تھیں یعنی ان کے بعد جب انہوں نے سرکشی اختیار کی تو ان پر اللہ نے ان چیزوں کو حرام کردیا اور یا انہیں سزا دی ۔