You are reading a tafsir for the group of verses 6:141 to 6:142
وَهُوَ
الَّذِیْۤ
اَنْشَاَ
جَنّٰتٍ
مَّعْرُوْشٰتٍ
وَّغَیْرَ
مَعْرُوْشٰتٍ
وَّالنَّخْلَ
وَالزَّرْعَ
مُخْتَلِفًا
اُكُلُهٗ
وَالزَّیْتُوْنَ
وَالرُّمَّانَ
مُتَشَابِهًا
وَّغَیْرَ
مُتَشَابِهٍ ؕ
كُلُوْا
مِنْ
ثَمَرِهٖۤ
اِذَاۤ
اَثْمَرَ
وَاٰتُوْا
حَقَّهٗ
یَوْمَ
حَصَادِهٖ ۖؗ
وَلَا
تُسْرِفُوْا ؕ
اِنَّهٗ
لَا
یُحِبُّ
الْمُسْرِفِیْنَ
۟ۙ
وَمِنَ
الْاَنْعَامِ
حَمُوْلَةً
وَّفَرْشًا ؕ
كُلُوْا
مِمَّا
رَزَقَكُمُ
اللّٰهُ
وَلَا
تَتَّبِعُوْا
خُطُوٰتِ
الشَّیْطٰنِ ؕ
اِنَّهٗ
لَكُمْ
عَدُوٌّ
مُّبِیْنٌ
۟ۙ
3

خدا نے انسان کے ليے طرح طرح کی غذائیں پیدا کی ہیں۔ کچھ چیزیں وہ ہیں جو زمین میں پھیلتی ہیں۔ مثلاً خربوزے، سبزیاں وغیرہ۔ کچھ چیزیں وہ ہیں جو ٹٹیوں پر چڑھائی جاتی ہیں۔ مثلاً انگور وغیرہ۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو اپنے تنا پر کھڑی رہتی ہیں۔ مثلاً کھجور، آم وغیرہ۔ اسی طرح آدمی کی ضرورت کے لیے مختلف قسم کے چھوٹے بڑے جانور پیدا كيے۔ مثلاً اونٹ گھوڑے اور بھیڑ بکریاں۔

آدمی ایک علیٰحدہ مخلوق ہے اور بقیہ چیزیں علیٰحدہ مخلوق۔ دونوں ایک دوسرے سے الگ الگ پیدا ہوئے ہیں۔ مگر انسان دیکھتا ہے کہ دونوں میں زبردست ہم آہنگی ہے۔ آدمی کے جسم کو اگر غذائیت درکار ہے تو اس کے باہر ہرے بھرے درختوں میں حیرت انگیز قسم کے غذائی پیکٹ لٹک رہے ہیں۔ اگر اس کی زبان میں مزه كا احساس پايا جاتا هے تو پھلوں كے اندر اس كي تسكين كا اعليٰ سامان موجود هے۔ اگر اس كي آنكھوں ميں حسنِ نظر کا ذوق ہے تو قدرت کا پورا کارخانہ حسن اور دل کشی کا مرقع بنا ہوا ہے۔ اگر اس کو سواری اور بار برداری کے ذرائع درکار ہیں تو یہاں ایسے جانور موجود ہیں جو اس کے ليے نقل وحمل کا ذریعہ بھی بنیں اور اسی کے ساتھ اس کے ليے قیمتی غذا بھی فراہم کریں۔ اس طرح کائنات اپنے پورے وجود کے ساتھ توحید کا اعلان بن گئی ہے۔ کیوں کہ کائنات کے مختلف مظاہر میں یہ وحدت اس کے بغیر ممکن نہیں کہ اس کا خالق ومالک ایک ہو۔

آدمی جب دیکھتا ہے کہ اتنا عظیم کائناتی اہتمام اس کے کسی ذاتی استحقاق کے بغیر ہورہا ہے تو اس یک طرفہ انعام پر اس کا دل شکر کے جذبے سے بھر جاتا ہے۔ پھر اسی کے ساتھ یہ سارا معاملہ آدمی کے لیے تقویٰ کی غذا بن جاتاہے۔ انسانی فطرت کا یہ تقاضا ہے کہ ہر عنایت (privilege) کے ساتھ ذمہ داری (responsibility) ہو۔ یہ چیز آدمی کو جزا وسزا کی یاددلاتی ہے اور اس کو آمادہ کرتی ہے کہ وہ دنیا میں اس احساس کے ساتھ رہے کہ ایک دن اس کو خدا کے سامنے حساب کے ليے کھڑا ہونا ہے۔ یہ احساسات اگر حقیقی طورپر آدمی کے اندر جاگ اٹھیں تو لازمی طورپر اس کے اندر دو باتیں پیدا ہوں گی۔ ایک یہ کہ اس کو جو کچھ ملے گا اس میں وہ اپنے مالک کا حق بھی سمجھے گا۔ دوسرے یہ کہ وہ صرف واقعی ضرورت کے بقدر خرچ کرے گا، نہ کہ فضول ا ور بے موقع خرچ کرنے لگے۔ مگر شیطان یہ کرتا ہے کہ اصل رخ سے آدمی کا ذہن موڑ کر اس کو دوسری غیر متعلق باتوں میں الجھا دیتاہے۔