You are reading a tafsir for the group of verses 6:141 to 6:142
وَهُوَ
الَّذِیْۤ
اَنْشَاَ
جَنّٰتٍ
مَّعْرُوْشٰتٍ
وَّغَیْرَ
مَعْرُوْشٰتٍ
وَّالنَّخْلَ
وَالزَّرْعَ
مُخْتَلِفًا
اُكُلُهٗ
وَالزَّیْتُوْنَ
وَالرُّمَّانَ
مُتَشَابِهًا
وَّغَیْرَ
مُتَشَابِهٍ ؕ
كُلُوْا
مِنْ
ثَمَرِهٖۤ
اِذَاۤ
اَثْمَرَ
وَاٰتُوْا
حَقَّهٗ
یَوْمَ
حَصَادِهٖ ۖؗ
وَلَا
تُسْرِفُوْا ؕ
اِنَّهٗ
لَا
یُحِبُّ
الْمُسْرِفِیْنَ
۟ۙ
وَمِنَ
الْاَنْعَامِ
حَمُوْلَةً
وَّفَرْشًا ؕ
كُلُوْا
مِمَّا
رَزَقَكُمُ
اللّٰهُ
وَلَا
تَتَّبِعُوْا
خُطُوٰتِ
الشَّیْطٰنِ ؕ
اِنَّهٗ
لَكُمْ
عَدُوٌّ
مُّبِیْنٌ
۟ۙ
3

آیت ” نمبر 141 تا 142۔

اللہ وہ ذات ہے جس نے ابتداء ان باغات کو پیدا کیا لہذا وہی ہے جو ایک مردہ سے زندہ چیز کو نکالتا ہے ۔ ان باغوں میں سے کچھ تو ایسے ہیں جو تاکستان کی شکل کے ہیں اور انسان انہیں اگاتا ہے ۔ اور ان کے اردگرد باڑ لگاتا ہے اور کچھ نخلستان کی شکل کے ہیں ۔ جو خود ہی پیدا ہوتے ہیں اور ان کو انسان کی جانب سے کسی قسم کی اعانت کی ضرورت نہیں ہے ۔ کچھ اور فصلیں اس نے اگائیں ۔ زیتون اور انار اس نے پیدا کیے اور قسم قسم کے پھل ہیں جو ملتے جلتے بھی ہیں اور جدا جدا بھی ہیں ۔ پھر حیوانات بھی اس نے پیدا کیے جن میں سے بعض اونچے قد کے ہیں اور کچھ چھوٹے جسم کے ہیں اور وہ تمہارے کھانے کے لئے اور لباس کے لئے ہیں اور جن کے بالوں سے تم فرش وقالین بناتے ہو۔

اور یہ اللہ ہی ہے جس نے اس کرہ ارض پر رنگا رنگ زندہ مخلوقات کو پھیلایا اور اس مخلوقات کی رنگارنگی حیرت انگیز ہے ۔ اور پھر اس مخلوق کو ان فرائض کیلئے نہایت ہی ساز گار ماحول دیا جو انسان کو اس کرہ ارض پر ادا کرتے ہیں ان کو ان ضروریات کے لئے بھی موافق بنایا جو انسان کی زندگی کے لئے لابدی ہیں ۔ ان آیات و دلائل اور ان رنگا رنگ مخلوقات کو دیکھ کر ایک انسان کس طرح کچھ اثر لئے بغیر گزر سکتا ہے ۔ پھر بھی وہ اس مخلوق اور ان زرعی اجناس میں اللہ کے سوا کسی اور کی حاکمیت و اختیارات کو تسلیم کرتا ہے ۔

قرآن کریم بار بار اس رزق کا ذکر کرتا ہے جو انسان کے لئے اللہ نے اس کرہ ارض پر بکھیر دیا ہے اس متنوع رزق کو اس بات پر دلیل کے طور پر پیش کرتا ہے کہ اگر رازق وہ ہے تو حاکم بھی وہی ہے ۔ انسانوں پر اس کی حکومت چلنی چاہئے ۔ اس لئے کہ جو خالق ہے ‘ رازق ہے ‘ رب ہے اور پوری زندگی میں کفیل ہے ‘ صرف وہی اس بات کا مستحق ہے کہ لوگ زرعی اجناس اور مویشیوں اور پوری زندگی کے معاملات میں اسے اپنا حاکم ‘ مختار اور قانون ساز سمجھیں ۔ اور اس میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہ ہو ۔

یہاں اللہ تعالیٰ نے باغات اور پھلوں کے کئی مناظر کی طرف اشارہ کیا ہے مختلف قسم کے جانوروں کا ذکر کیا ہے اور بتلایا ہے کہ یہ تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کے انعامات ہیں۔ اس سے پہلے ان مناظر سے اللہ کی الوہیت اور خدائی پر استدلال کیا گیا ہے ۔ اور یہاں اللہ تعالیٰ ان چیزوں کے ذکر سے اپنے حق حکمرانی پر استدلال کرتا ہے ۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ الوہیت اور حاکمیت دراصل ایک ہی حقیقت ہے ۔ وہی حاکم ہے اور یہ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے ۔

(لاالہ الا اللہ لا حاکم الا اللہ) اب فصلوں اور پھلوں کے ذکر کے بعد یہ حکم ہے ۔ ایک قانون کی طرف اشارہ ۔

آیت ” کُلُواْ مِن ثَمَرِہِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُواْ حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ (141)

” کھاؤ ان کی پیداوار جب کہ یہ پھلیں اور اللہ کا حق ادا کرو جب ان کی فصل کاٹو اور حد سے نہ گزرو کہ اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا “۔ یہاں یہ کہا گیا ہے کہ جب تم اس کی فصل کاٹو تو اللہ کا حق دو ‘ اس فقرے کی وجہ سے بعض روایات میں آتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے ۔ لیکن ہم نے اس سورة کے مقدمہ میں اچھی طرح واضح کردیا ہے کہ یہ آیت مکی ہے ۔ اور اگر اس سورة سے اس آیت کو علیحدہ کردیاجائے تو بات مکمل نہیں ہوتی ۔ اس آیت سے قبل کا کلام اور بعد کا کلام ایک دوسرے سے اس وقت تک کٹ جاتا ہے جب تک یہ آیت مدینہ میں نازل نہیں ہوجاتی ‘ لہذا یہ بات درست نہیں ہے ۔ پھر ضروری نہیں ہے کہ اللہ کا حق جس کا اس سورة میں ذکر ہے وہ زکوۃ ہی ہو ۔ بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ اس سے مراد مقدمہ ہے ۔ رہی زکوۃ تو اپنی متعین شرح کے ساتھ تو وہ ہجرت کے بعد دوسرے سال میں فرض ہوئی ۔

آیت ” وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ (141)

” اور حد سے نہ گزرو کہ اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا “۔

یہ آیت کھانے پر بھی مناسب حد بندی ہے اور عطا پر بھی مناسب حد بندی عائد کرتی ہے ۔ روایات میں آتا ہے کہ مسلمان جب دینے لگے تو حد سے گزر گئے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ” اور حد سے نہ گزرو کہ اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا “۔ اسلام ہر بات میں اعتدال کو پسند کرتا ہے ۔

آیت ” وَمِنَ الأَنْعَامِ حَمُولَۃً وَفَرْشاً کُلُواْ مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّہُ وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّیْْطَانِ إِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(14

” پھر وہی ہے جس نے مویشیوں میں سے وہ جانور بھی پیدا کئے جن سے سواری وبار برداری کا کام لیا جاتا ہے اور وہ بھی جو کھانے اور بچھانے کے کام آتے ہیں ۔ کھاؤ ان چیزوں میں سے جو اللہ نے تمہیں بخشی ہیں اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ “

مویشیوں کے ذکر میں یہ کہا گیا ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ انسان کو یہ یاد دلانا مطلوب ہے کہ یہ تمام مخلوق اللہ کی پیدا کردہ ہے ۔ شیطان کسی چیز کا خالق نہیں ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جب شیطان کا کچھ ہے ہی نہیں تو پھر یہ کیا ہے کہ نعمتیں اللہ کی اور پیروی شیطان کی ؟ جبکہ معلوم ہے کہ شیطان ہے بھی کھلا دشمن ۔ کیا سوچتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی چیزیں استعمال کرکے شیطان کی پیروی کرتے ہو اور وہ تو کھلا دشمن ہے ۔

اب قرآن کریم نہایت ہی گہرائی میں جا کر ادہام جاہلیت کو تلاش کرتا ہے ۔ نہایت ہی خفیہ گوشوں پر روشنی ڈالی جاتی ہے اور ایک ایک خفیہ گوشے کو روشنی میں لایا جاتا ہے ۔ ایسے ایسے گوشے واضح کرتا ہے جو بادی النظر میں بھی نامعقول ہیں اور ان کی کوئی توجہیہ نہیں کی جاسکتی اور بعض اوقات تو ان ادہام میں مبتلا لوگوں کو بہت زیادہ شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے ۔ خصوصا اس وقت جب ان کی یہ حرکات کھلے میدان میں آشکارا ہوجاتی ہیں اور جب وہ دیکھ لیتے ہیں کہ انکے ان ادہام کی پشت پر نہ کوئی سند ہے ‘ نہ کوئی کتاب منیر ہے اور نہ کوئی عقلی دلیل ہے ۔