وَقَالُوْا
مَا
فِیْ
بُطُوْنِ
هٰذِهِ
الْاَنْعَامِ
خَالِصَةٌ
لِّذُكُوْرِنَا
وَمُحَرَّمٌ
عَلٰۤی
اَزْوَاجِنَا ۚ
وَاِنْ
یَّكُنْ
مَّیْتَةً
فَهُمْ
فِیْهِ
شُرَكَآءُ ؕ
سَیَجْزِیْهِمْ
وَصْفَهُمْ ؕ
اِنَّهٗ
حَكِیْمٌ
عَلِیْمٌ
۟
3

آیت ” نمبر 139۔

اس شرک اور بت پرستی سے جو ادہام پیدا ہوئے تھے ‘ انکے اندر یہ لوگ اس قدر آگے بڑھ گئے تھے کہ انہوں نے حلال و حرام کے تعین کا کام بھی اللہ کے بجائے انسانوں کے سپرد کردیا تھا اور دعوی یہ کرتے تھے کہ یہ انسان جو قانون سازی کر رہے ہیں وہی اللہ کی شریعت ہے ۔ چناچہ خرافات کی دنیا میں وہ اس مقام تک آپہنچے کہ کہنے لگے کہ ان جانوروں کے پیٹ میں جو کچھ ہے وہ مردوں کے لئے ہے یا شاید یہ بات وہ مذکورہ بالا بحریہ ‘ سائبہ اور وصیلہ وغیرہ کے حق میں کہتے تھے کہ عورتوں کے لئے اس کا کھانا حرام ہے ۔ ہاں ایک صورت ہے کہ اگر یہ جانور مردہ حالت میں پیدا ہو تو عورتیں بھی ان سے کھاسکتی ہیں اور یہ کیوں ؟ اس کا کوئی منطقی جواز ان کے پاس نہ تھا ۔ ہاں جواز صرف یہ تھا کہ انہوں نے قانون سازی کا کام جن لوگوں کے سپرد کردیا تھا ان کی منشا یہ ہوگی یا ان کا مفاد اس میں ہوگا ۔ یہ خالص بےمعنی قانون سازی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ اس آیت کے آخر میں قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ یہ نہایت ہی مکروہ قانون ہے ۔ جن لوگوں نے یہ بنایا ہے انہوں نے اللہ پر افتراء پردازی کی ہے ‘ خصوصا یہ بات جو وہ کہتے ہیں کہ یہ بھی من عند اللہ شریعت ہے ۔

آیت ” سَیَجْزِیْہِمْ وَصْفَہُمْ إِنَّہُ حِکِیْمٌ عَلِیْمٌ(139)

” ان کا بدلہ اللہ انہیں دے کر رہے گا ۔ یقینا وہ حکیم ہے اور سب باتوں کی اسے خبر ہے ۔ “

وہ تمام امور میں بڑی حکمت کے ساتھ تصرفات کرتا ہے اور اس کے فیصلے اور قانون ایسے نہیں ہوتے جیسے ان جاہلوں کے ہوتے ہیں ۔

جب انسان کلام الہی کو پڑھتے ہوئے ان گمراہیوں پر نظر ڈالتا ہے اور ان گمراہیوں کے حاملین جن خساروں ‘ نقصانات اور مشکلات میں مبتلا ہوتے ہیں ان پر غور کرتا ہے تو وہ یہ دیکھ کر نہایت ہی تعجب میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ لوگ اسلامی شریعت اور اسلامی نظام سے انحراف کرکے کس قدر نقصانات اٹھا رہے ہیں اور کن ناقابل برداشت ذمہ داریوں میں گھر گئے ہیں ۔ ان ذمہ داریوں کو لے کر وہ کس قدر فضول اور مجمل ناقابل فہم امور میں مبتلا ہوگئے ہیں ۔ ان کے عقائد غلط ہیں اور ان فرائض ایسے عائد کردئیے گئے ہیں کہ ناقابل فہم امور میں مبتلا ہوگئے ہیں ۔ ان کے عقائد غلط ہیں اور ان پر فرائض ایسے عائد کردیئے گئے ہیں ۔ کہ ناقابل برداشت ہیں ۔ ان کی زندگی پیچیدہ اور اضطراب انگیز ہے ۔ زندگی کا کوئی اصول نہیں ہے ۔ ہر طرف وہم و خرافات اور تقلید اور نقل ہے ۔ ان سب حالات کے مقابلے میں اسلام کا عقیدہ توحید ہے جو بالکل صاف ستھرا اور واضح ہے ۔ عقیدہ انسانی ذہن سے ادہام اور خرافات کو کھرچ کر رکھ دیتا ہے اور انسانی عقل کو اندھی تقلید کی پیروی اور جکڑی بندیوں سے آزاد کردیتا ہے ۔ یہ عقیدہ انسانیت کو جاہلیت اور اس کی رسومات سے رہائی دلاتا ہے ۔ پھر یہ عقیدہ بندوں کو بندوں کی غلامی سے آزاد کرتا ہے ‘ چاہے یہ غلامی قانون سازی کے معاملے میں ہو ‘ یا رسومات اور طرز عمل میں ہو یا حسن وقبح کے پیمانوں کے میدان میں ہوں۔ اس جنگل سے نکال کر عقیدہ توحید انسان کو ایک واضح نظریہ دیتا ہے ۔ ایک واضح معنی دیتا ہے ۔ اس کے تصورات واضح اور آسان ہیں ۔ ان تصورات کی روشنی میں انسان کو ہمہ گیر آزادی نصیب ہوجاتی ہے اور انسان صرف اللہ کی بندگی اور غلامی کے اعلی ارفع مقام تک پہنچ جاتا ہے ۔ لوگ نبی کی اتباع سے وہاں پہنچ سکتے ہیں۔

آہ ! یہ ایک عظیم خسارہ ہے اور یہ خسارہ دنیا میں بھی ہے اور آخرت میں بھی ‘ بلکہ آخرت کا خسارہ تو بہت ہی زیادہ ہے اور یہ اس لئے ہے کہ انسانیت نے اللہ کی سیدھی راہ سے انحراف کرلیا ہے اور جاہلیت کی گندگی میں ڈوب گئی ہے ۔ اس نے انسانوں کی غلامی میں اپنے آپ کو دے دیا ہے ۔