آیت ” نمبر 137۔
جس طرح ان لوگوں کے لئے ان کے شرکاء اور ان کے شیاطین نے اپنے مالوں اور فصلوں میں یہ تصرفات خوبصورت بنادیئے ہیں ‘ اسی طرح انہوں نے ان کے لئے قتل اولاد کو بھی مزین بنا دیا ہے ۔ یوں کہ وہ لوگ اپنی بیٹیوں کو تنگدستی کے خوف سے زندہ درگور کردیتے تھے ‘ یا اس لئے کہ وہ جنگی قیدی بن جائیں گی اور ان کے لئے موجب طار ہوں گی ۔ بعض اوقات وہ اولاد کو بطور نذر بھی قتل کرتے تھے ۔ جس طرح حضرت عبدالمطلب سے روایت ہے کہ انہوں نے یہ نذر مانی تھی کہ اگر اللہ نے ان کو دس ایسے بیٹے بخشے جوان کے لئے دست وبازو ہوں تو وہ ان میں سے ایک کو قربان کریں گے ۔
یہ تمام باتیں ان کے دل و دماغ میں انکی جاہلی رسومات نے پختہ طور پر بٹھا دی تھیں ۔ یہ رسومات جاہلیت وہ تھیں جو لوگوں نے خود ہی اپنے لئے وضع کی تھیں ۔ اس آیت میں جن شرکاء کا ذکر ہے اس سے مراد شیاطین جن وانس ہیں انسانوں میں سے جو شیاطین تھے وہ کاہن ‘ مجاور اور سردار تھے ۔ جنوں میں سے وہ لوگ تھے جو بعض انسانوں کے دوست بن جاتے تھے اور وہ انسانوں کی مدد کرتے تھے ۔ اس آیت میں ان شیاطین کا جو واضح ہدف بتایا گیا ہے وہ یہ ہے ۔
آیت ” لِیُرْدُوہُمْ وَلِیَلْبِسُواْ عَلَیْْہِمْ دِیْنَہُمْ “۔ (6 : 137)
” تاکہ انکو ہلاکت میں مبتلا کریں اور ان پر ان کے دین کو مشتبہ بنادیں ۔ “ یعنی وہ ان کو ہلاک کردیں ‘ ان پر ان کے دین کو گنجلک اور مشتبہ بنادیں ۔ اس طرح کہ وہ اسے واضح طور پر سمجھ نہ سکیں ۔ ہلاک کرنے کا مصداق ایک تو یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو قتل کرتے ہیں ۔ دوسرا مصداق یہ ہے کہ ان کی اجتماعی زندگی اسلام کے خلاف ہوجاتی ہے اور وہ اپنے معاشرے میں ان مویشیوں کی طرح بن جاتے ہیں جن کو وہ شیاطین جس طرح چاہیں ہانک کرلے جائیں ‘ یعنی اپنے مقاصد اور مفادات کے مطابق یہاں تک کہ وہ لوگ ان حیوانوں کے اموال ‘ اولاد اور خود ان کی جان کے بارے میں قتل کرنے اور ہلاک کرنے کے اختیارات کے بھی ملک ہوجاتے ہیں۔ ان حیوانوں کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ پوری اطاعت کریں ۔ اس لئے کہ دین اور عقیدے کے ساتھ جو زائد تصورات وابستہ کردیئے گئے اور جو درحقیقت دین سے نہیں ہیں ‘ وہ نہایت ہی گہرے ہوگئے اور اب دیندار لوگوں پر ان کا بھاری دباؤ ہے ۔ یہ تصورات چونکہ سوسائٹی کے اندر موجود رسم و رواج کی وجہ سے دین سے وابستہ ہوئے ہیں اس لئے یہ عرف بھی ان کی پشت پر ہوتا ہے اور ان رسومات کا دباؤ معاشرے پر اس قدر زیادہ ہوجاتا ہے کہ عوام کالانعام اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ الا یہ کہ یہ ان میں سے کوئی حقیقی دین کی بنیادون کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہو اور قرآن وسنت پر اس کی گرفت مضبوب ہو ۔
یہ دینی رنگ کے مبہم اور پیچیدہ تصورات جن کو لوگ دین سمجھتے ہیں ‘ یہ اجتماعی رسومات جن سے یہ تصورات پروان چڑھتے ہیں اور جو عوام الناس پر کمر توڑ بوجھ بنے ہوئے ہیں ‘ یہ ان صورتوں تک محدود نہیں ہیں جو قدیم زمانوں کی جاہلیتوں کے اندر پائی جاتی تھیں ‘ دور جدید کی تازہ ترین جاہلیت میں بھی یہ تصورات واضح طور پر موجود ہیں ۔ یہ رسم و رواج جو دور جدید میں بھی عوام الناس پر بارگراں بنے ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے عوام کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے ‘ لوگوں کے لئے لابدی بن گئے ہیں اور اب لوگوں کے لئے کوئی راہ نہیں رہی ہے کہ وہ ان کے چنگل سے نکل باگیں ۔ لوگوں نے اپنے اوپر مخصوص لباس فرض کرلئے ہیں اور بعض اوقات ان پر اس قدر روپیہ خرچ کرتے ہیں جو انکے پاس نہیں ہوتا ۔ یہ رسم و رواج لوگوں کی زندگی کو چاٹ جاتے ہیں ۔ ان کی تمام آرزوئیں خاک میں مل جاتی ہیں ‘ ان کے اخلاق ختم ہوجاتے ہیں لیکن ہو ہر حال میں ان کی پابندی کرتے ہیں۔ صبح کا لباس ‘ دوپہر کا لباس ‘ شام کا لباس ‘ منی اسکرٹ ‘ ٹیڈی لباس اور مضحکہ خیز لباس ‘ قسم قسم کا میک اپ اور بناؤ سنگھار ۔ بعض لوگ یہ کام کرتے ہیں بعض ان سے کراتے ہیں ۔ کرانے والوں میں سے لباس کے بڑے بڑے تاجر ‘ بڑی بڑی کمپنیاں اور بینکوں اور مالی اداروں کے سود خور کارندے اور وہ تاجر شامل ہیں جو لوگوں سے یہ حرکات اس لئے کراتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں جو نفع ملے اسے وہ مزے لے لے کر کھائیں ۔ اس تمام صورت حال کی پشت پر یہودی سازش ہے اور یہودیوں نے یہ صورت حال اس لئے چلا رکھی ہے کہ اس طرح وہ لوگوں پر معاشی اور سیاسی حکمرانی کریں ۔ لیکن یہودی یہ کام اسلحہ اور فوج کے ذریعے نہیں کرتے بلکہ یہ کام وہ افکار وخیالات ‘ تصورات ونظریات کے ہتھیاروں کے ذریعے کرتے ہیں اور یہ حکومت وہ عرف عام کے دباؤ سے کرتے ہیں اور یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ نظریات کا اثر اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک یہ نظریات نظام حکومت کا روپ نہ دھاریں اور اجتماعی شکل اختیار نہ کرلیں اور سوسائٹی کے ڈھانچے کے اندر نہ گھس جائیں ۔ چناچہ سوسائٹی کے اندر ان جاہلی نظریات اور تصورات کو یہ یہودی بڑی اسکیم کے ساتھ پھیلاتے اور جاری کرتے ہیں ۔
یہ کام معاشرے کے تمام شیاطین کرتے ہیں ‘ یہ شیاطین جنوں میں بھی ہیں اور انسانوں میں بھی ۔ یہ تمام کام جاہلیت میں جس کی اشکال اور صورتیں مختلف ہیں ۔ لیکن اس کے اصول اور جڑیں اور بنیادیں ایک ہی ہوتی ہیں ۔ اگر ہم یہ سمجھیں کہ قرآن نے بعض ازمنہ قدیمہ کی جاہلیتوں ہی پر بحث وتقید کی ہے اور جدید دور کی جاہلیتوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں تو ہم قرآن کریم کی شان کو گھٹا رہے ہوں گے ۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم تمام قدیم وجدید جاہلیتوں پر بحث کرتا ہے ۔ وہ ہر دور میں انحراف کرنے والے معاشرے کا مقابلہ کرتا ہے اور اسے واپس لا کر جادہ مستقیم پر ڈالتا ہے ۔
باوجود اس کے کہ یہ ایک عظیم عمرانی بوجھ اور سازش ہے قرآن کریم مسئلہ جاہلیت کے حل کو آسان کرنے کے لئے اس حقیقت کا انکشاف کرتا ہے کہ یہ تمام شیاطین اور ان کے دوست اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور وہ جو کچھ کر رہے ہیں اپنی قوت اور قدرت سے نہیں کر رہے ۔ وہ یہ کام اس لئے کر رہے ہیں کہ اللہ نے ان کو مہلت دے رکھی ہے ‘ اس دنیا کی مختصر زندگی کے لئے ۔ یہاں یہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ کے دائرہ قدرت کے اندر اور اللہ کی مشیت کے ساتھ کر رہے ہیں اگر اللہ کی مشیت نہ ہوتی تو وہ ہر گز ایسا نہ کرتے ۔ لہذا کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ انہیں اپنی روش پر چلنے دیجئے ۔
آیت ” وَلَوْ شَاء اللّہُ مَا فَعَلُوہُ فَذَرْہُمْ وَمَا یَفْتَرُونَ (137)
” اگر اللہ چاہتا تو یہ ایسا نہ کرتے ‘ لہذا انہیں چھوڑ دو کہ یہ اپنی افترا پردازیوں میں لگے رہیں ۔ “
یہ بات اپنی جانب سے کر رہے ہیں بلکہ وہ یہ دعوی کرتے تھے کہ یہ تمام تصورات اور تصرفات من جانب اللہ ہیں اور ان کے لئے یہ شریعت ہیں ۔ اپنے زعم کے مطابق وہ کہتے تھے کہ یہ تصورات وتصرفات حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت ہیں۔
آج جاہلیت جدیدہ کے دور میں بھی شیاطین کا یہی رویہ ہے ۔ ان کی اکثریت میں اس قدر جرات تو نہیں ہے کہ وہ کمیونسٹوں کی طرح سرے سے وجود باری کا انکار ہی کردیں ۔ لیکن وہ دین کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو دور جاہلیت قدیمہ کے لوگ کرتے تھے ۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو دین اور مذہب کا سخت احترام کرتے ہیں اور وہ جو قانون بتاتے ہیں اس کی اساس بھی دین اسلام پر ہی ہے ۔ لیکن ان لوگوں کا طریقہ ورادت خالص منکرین خدا اور کیمونسٹوں کے مقابلے میں زیادہ مکارانہ اور اذیت دہ ہے ۔ یہ لوگ مسلمانوں کے اس سوئے ہوئے جذبہ دین سے بہت ڈرتے ہیں جو ان کی رگ وروح میں جاری وساری ہے ۔ ا گرچہ وہ جذبہ اسلام کا حقیقی جذبہ نہ ہو ‘ کیونکہ مکمل اسلام تو پورا نظام حیات ہے ۔ وہ محض خفیہ جذبہ نہیں ہے اور نہ بجھی ہوئی چنگاری ہے ۔ اس طرح یہ لوگ مسلمانوں کے غیض وغضب سے بچنا چاہتے ہیں ۔ یہ نہایت ہی مکارانہ چال ہے اور اسلام کے خلاف ایک نہایت ہی تکلیف دہ صورت حالات ہے ۔
اب ذرا دین کے ان نادان حامیوں کے حالات کو دیکھئے ۔ یہ اسلامی نظام حیات کے اساسی مقاصد کو چھوڑ کر ادھر ادھر کی باتوں پر اپنی قوتیں کھپاتے ہیں ۔ انہیں اس جاہلی صورت حالات کے اندر یہ بات نظر ہی نہیں آتی کہ اللہ کی حاکمیت پر دست درازی کرکے شرک کا ارتکاب کیا جارہا ہے اور بےدانش جوش کی وجہ سے وہ موجودہ مشرکانہ نظام کو ایک اسلامی صورت حالات بناتے ہیں ۔ اپنی اس روش کی وجہ سے یہ تاثر دیتے ہیں کہ موجودہ حالات گویا اسلامی حالات ہیں اور ان حالات اور عالم اسلام کی صورت حال میں صرف چند جزئیات کا اختلاف ہے ۔
اپنے اس رویے کی وجہ سے اسلام کے یہ نادان دوست ‘ مذہبی طبقے اور بظاہر اسلام کے پرجوش حامی اس غیر اسلامی صورت حالات کو طول دے رہے جو سراسر غیر اسلامی ہے اور اسلامی دنیا پرچھائی ہوئی ہے حالانکہ اس طرز عمل کی وجہ سے ان لوگوں کے مقاصد پورے ہو رہے ہیں جو اسلام کے دشمن ہیں ۔ یہ خدمات وہ لوگ انجام دیتے ہیں جنہوں نے اسلام کا مخصوص مذہبی لباس پہن رکھا ہے حالانکہ اسلامی نظام نے کوئی ایسا مخصوص مذہبی طبقہ نہیں رکھا کہ اسلام کے بارے میں وہی بات کرسکے ۔ اسلام کا نہ کوئی کاہن ہے اور نہ اس میں کسی پادری کی گنجائش ہے کہ ان کے سوا کوئی اور اسلام کی بات ہی نہ کرسکے ۔