You are reading a tafsir for the group of verses 6:136 to 6:137
وَجَعَلُوْا
لِلّٰهِ
مِمَّا
ذَرَاَ
مِنَ
الْحَرْثِ
وَالْاَنْعَامِ
نَصِیْبًا
فَقَالُوْا
هٰذَا
لِلّٰهِ
بِزَعْمِهِمْ
وَهٰذَا
لِشُرَكَآىِٕنَا ۚ
فَمَا
كَانَ
لِشُرَكَآىِٕهِمْ
فَلَا
یَصِلُ
اِلَی
اللّٰهِ ۚ
وَمَا
كَانَ
لِلّٰهِ
فَهُوَ
یَصِلُ
اِلٰی
شُرَكَآىِٕهِمْ ؕ
سَآءَ
مَا
یَحْكُمُوْنَ
۟
وَكَذٰلِكَ
زَیَّنَ
لِكَثِیْرٍ
مِّنَ
الْمُشْرِكِیْنَ
قَتْلَ
اَوْلَادِهِمْ
شُرَكَآؤُهُمْ
لِیُرْدُوْهُمْ
وَلِیَلْبِسُوْا
عَلَیْهِمْ
دِیْنَهُمْ ؕ
وَلَوْ
شَآءَ
اللّٰهُ
مَا
فَعَلُوْهُ
فَذَرْهُمْ
وَمَا
یَفْتَرُوْنَ
۟
3

مشرکین میں یہ رواج تھا کہ وہ فصل اور مویشی میں سے اللہ کا اور بتوں کا حصہ نکالتے۔ اگر وہ دیکھتے کہ خدا کے حصہ کا جانور یا غلہ اچھا ہے تو ا س کو بدل کر بتوں کی طرف کردیتے۔ مگر بتوں کا اچھا ہوتا تو اس کو خدا کی طرف نہ کرتے۔پیداوار کی تقسیم کے وقت بتوں کے نام کا کچھ حصہ اتفاقاً اللہ کے حصہ میں مل جاتا تو اس کو الگ کرکے بتوں کی طرف لوٹا دیتے۔ اور اللہ کے نام کا کچھ حصہ بتوں کی طرف چلا جاتا تو اس کو نہ لوٹاتے۔ اسی طرح اگر کبھی نذر ونیاز کا غلہ خود استعمال کرنے کی ضرورت پیش آجاتی تو خدا کا حصہ لے لیتے مگر بتوں کے حصہ کو نہ چھوتے۔ وہ ڈرتے تھے کہ کہیں کوئی بلا نازل ہوجائے۔ کہنے کے ليے وہ خدا کو مانتے تھے مگر ان کا اصل یقین اپنے بتوں کے اوپر تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی محسوس بتوں کو اسی ليے گھڑتا ہے کہ اس کو غیر محسوس خدا پر پورا بھروسہ نہیں ہوتا۔

یہی حال ہر اس شخص کا ہوتا ہے جو زبان سے تو اللہ کو مانتا ہومگر اس کا دل اللہ کے سوا کہیں اور اٹکا ہوا ہو۔ جو لوگ کسی زندہ یا مردہ ہستی کو اپنی عقیدتوں کا مرکز بنالیں ان کا حال بھی یہی ہوتا ہے کہ جو وقت ان کے یہاں خدا کی یاد کا ہے اس میں تو وہ اپنے ’’شریک‘‘ کی یاد کو شامل کرلیتے ہیں۔ مگر جو وقت ان کے نزدیک اپنے شریک کی یاد کا ہے اس میں خدا کا تذکرہ انھیں گوارا نہیں ہوتا۔ شیفتگی اور وارفتگی کا جو حصہ خدا کے لیے ہونا چاہیے اس کا کوئی جزء وہ بآسانی اپنے شریکوں کو دے دیں گے۔ مگر اپنے شریک کے ليے وہ جس شیفتگی اور وارفتگی کو ضروری سمجھتے ہیں اس کا کوئی حصہ کبھی خدا کو نہیں پہنچے گا۔ جو مجلس خدا کی عظمت وکبریائی بیان کرنے کے ليے منعقد کی جائے اس میں ان کے شریکوں کی عظمت وکبریائی کا بیان تو کسی نہ کسی طرح داخل ہوجائے گا۔ مگر جو مجلس اپنے شریکوں کی عظمت و کبریائی کا چرچا کرنے کے ليے ہو وہاں خدا کی عظمت وکبریائی کا کوئی گزر نہ ہوگا۔

ان شریکوں کی اہمیت کبھی ذہن پر اتنا زیادہ غالب آتی ہے کہ آدمی اپنی اولاد تک کو اس کے ليے نثار کردیتا ہے۔ اپنی اولاد کو خدا کے ليے پیش کرنا ہو تو وہ پیش نہیں کرے گا مگر اپنے شریکوں کی خدمت میں انھیں دینا ہو تو وہ بخوشی اس کے ليے آمادہ ہوجاتا ہے۔

اس قسم کی تمام چیزیں خدا کے دین کے نام پر کی جاتی ہیں مگر حقیقۃً وہ افترا ہیں۔ کیوں کہ وہ ایک ایسی چیز کو خدا کی طرف منسوب کرنا ہے جس كا حكم خدا نے نهيں ديا۔