(آیت) ” نمبر 131۔
اللہ کی رحمت کا یہ تقاضا ہے کہ وہ لوگوں کو شرک ‘ کفر اور نافرمانی پر اس وقت تک سزا نہ دے جب تک ان تک رسولوں کے ذریعے اپنا پیغام پہنچا نہ دے حالانکہ اللہ نے لوگوں کی فطرت کے اندر یہ صلاحیت ودیعت کردی تھی کہ وہ از خود اپنے رب کی طرف متوجہ ہوں اور اس کی تلاش کریں ۔ یہ انتظام اس لئے کیا گیا کہ انسانی فطرت بعض اوقات صحیح راہ کو تم کردیتی ہے ۔ انسان کے فطری رجحانات کے علاوہ اللہ نے انسان کو عقلی قوت دے کر بھی ایک امتیاز بخشا لیکن اللہ نے اس عقلی قوت کے باوجود رسول بھیجے اس لئے کہ عقلی قوت بھی نفسانی خواہشات کے نتیجے میں بسا اوقات دب جاتی ہے نیز اس کائنات کے مشاہد ومناظر کے اندر بیشمار دلائل ایسے موجود تھے جو انسان کو دعوت فکر دیتے تھے لیکن انسان کی عقلی اور ادراکی قوتیں بسا اوقات معطل ہوجاتی ہیں ۔
ان وجوہات کی بنا پر اللہ نے انسانی فطرت ‘ انسانی عقل اور انسانی مشاہدے کو رسولوں کی دعوت کے ساتھ منسلک کردیا تاکہ انسان کی ان قوتوں کو فساد سے بچایا جاسکے ، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تب ہی لوگوں کو عذاب دیتا ہے جب رسولوں کی دعوت کسی تک پہنچ جائے اور ان پر حجت تمام ہوجائے ۔
اس حقیقت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کے ساتھ کس قدر رحیمانہ اور کریمانہ سلوک کرتا ہے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان صرف اپنی قوت ادراک اور عقلی قوتوں کے بل بوتے پر راہ ہدایت نہیں پاسکتا ۔ نہ وہ یقین حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی عقل اور ادراک کے ذریعے اپنی شہوانی قوتوں کو ضابطے کا پابند کرسکتا ہے ، یہ قوتیں تب ہی کام کرسکتی ہیں جب ان کی پشت پر دین اور عقیدے کی قوت موجود ہو۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ جزا و سزا کے بارے میں ایک دوسرے اہم اصول کا ذکر فرماتا ہے اور یہ اصول اہل ایمان اور جن و شیاطین سب کے لئے ہے ۔