آیت 131 ذٰلِکَ اَنْ لَّمْ یَکُنْ رَّبُّکَ مُہْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّاَہْلُہَا غٰفِلُوْنَ اس سے مراد یہ ہے کہ مختلف قوموں کی طرف رسولوں کو بھیجا گیا اور انہوں نے اپنی قوموں میں رہ کر انذار ‘ تذکیر اور تبشیر کا فرض ادا کردیا۔ پھر بھی اگر اس قوم نے قبول حق سے انکار کیا تو تب ان پر اللہ کا عذاب آیا۔ ایسا نہیں ہو تاکہ اچانک کسی بستی یا قوم پر عذاب ٹوٹ پڑا ہو ‘ بلکہ اللہ نے سورة بنی اسرائیل میں یہ قاعدہ ‘ کلیہ اس طرح بیان فرمایا ہے : وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلاً یعنی وہ عذا بِ استیصال جس سے کسی قوم کی جڑ کاٹ دی جاتی ہے اور اسے تباہ کر کے نسیاً منسیا کردیا جاتا ہے ‘ وہ کسی رسول کی بعثت کے بغیر نہیں بھیجا جاتا ‘ بلکہ رسول آکر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا بالکل مبرہن کردیتا ہے۔ اس کے باوجود بھی جو لوگ کفر پر اڑے رہتے ہیں ان کو پھر تباہ و برباد کردیا جاتا ہے۔