درس نمبر 69 تشریح آیات :
128۔۔۔۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔۔۔۔ 135۔
اس سے پہلے سبق میں یہ بات گزری ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کے دلوں کو اسلام کے لئے کھول دیتا ہے ۔ ایسے لوگوں کے دل بیدار ہوتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے رہتے ہیں ۔ یہ لوگ دارالسلام میں داخل ہوتے ہیں اور اپنے رب کی ولایت اور کفالت میں رہتے بستے ہیں ۔ اب یہاں ایسے لوگوں کا ذکر کیا جاتا ہے جو ان کے نقیض ہیں ۔ قیامت کے مناظر بیان کرتے ہوئے قرآن کریم کا یہی انداز ہوتا ہے کہ وہ تصویر کے دونوں رخ انسان کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ اب یہاں انسانوں اور جنوں میں سے جو لوگ شیطانی کام کرتے ہیں ان کے شب وروز کا ذکر کیا جاتا ہے ‘ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا میں ایسی زندگی گزاری ہے کہ یہ ایک دوسرے کو کھوٹی باتیں بتاتے رہے ہیں ۔ ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے رہے ہیں اور یہ کام وہ اس لئے کرتے رہے ہیں کہ لوگ گمراہ ہوں ۔ ان لوگوں کا رویہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ یہ لوگ نبیوں کے مقابلے میں ایک دوسرے کے پشتیبان بنیں اور یہ لوگ ایک دوسرے کو مشورے دیتے رہے ہیں تاکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ان معاملات میں بحث و مباحثہ کریں جن میں اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے حلال و حرام کا تعین کیا ہے ۔ ان لوگوں کو قرآن کریم نے اس طرح پیش کیا ہے جس طرح ایک زندہ اور متحرک منظر میں کوئی چلتا پھرتا نظر آتا ہے ۔ یہ لوگ اس منظر میں ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہوئے نہایت ہی منائف نظر آئے ۔ غرض اس آیت میں وہ مناظر بھر پور انداز میں آگئے جس طرح کہ قرآن کریم ہر جگہ مناظر قیامت کے بیان کے وقت یہ انداز عموما اختیار کرتا ہے ۔
(آیت) ” نمبر 128 تا 130۔
یہ منظر براہ راست مستقبل کے واقعات سے شروع ہوتا ہے ‘ جب اللہ تعالیٰ سب کو گھیر کر میدان حشر میں جمع کرے گا ‘ لیکن سننے والے کے لئے یہ صورت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ اس منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے اور وہ اس کی آنکھوں کے سامنے ہو اور یہ تخیل اور تصور صرف ایک لفظ (اور کہے گا) کے حذف سے سامنے آتا ہے یعنی ” اور جس روز ان سب کو گھیر کر جمع کرلے گا (اور یہ کہے گا) اے گروہ جن “۔ صرف لفظ کہے گا کے حذف سے مفہوم ایک منظر کی شکل میں نظروں کے سامنے آکھڑا ہوجاتا ہے اور وہ منظر جو مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والا تھا فی الواقع سامنے آجاتا ہے اور یہ انداز بیان قرآن کریم کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اب ذرا اس منظر کی تفصیلات ملاحظہ فرمائیں ۔
(آیت) ” یَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَکْثَرْتُم مِّنَ الإِنسِ “ (6 : 128)
” اے گروہ جن ! تم نے نوع انسانی پر خوب ہاتھ صاف کیا ۔ “ یعنی تم نے انسانوں کی اکثریت کو اپنا تابع بنا لیا ۔ وہ تمہاری ہدایات واشارات پر چلتے رہے اور تمہاری وسوسہ اندازیوں پر خوب یقین کرتے رہے ۔ تمہارے منصوبوں پر چلتے رہے ۔ یہ صورت واقعہ کا ایسا بیان ہے کہ جس سے مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ صرف واقعہ بیان کرنا مطلوب ہے اس لئے کہ جن اس بات کو خوب جانتے تھے کہ انہوں نے انسانوں کی ایک بڑی اکثریت کو گمراہ کردیا ہے بلکہ اس واقعی صورت حال کے بیان سے مقصد یہ ہے کہ یہ تمہارا بہت ہی بڑا جرم ہے کہ تم نے انسانوں کی اتنی بڑی اکثریت کو گمراہ کردیا ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے اس جرم کو دیکھ کر پشیمان ہوجائیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں جنات کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا ۔ البتہ وہ لوگ جواب دیتے ہیں جنہیں دھوکہ دیا گیا اور جو بسہولت ان شیاطین کے وسوسوں کا شکار ہوجاتے تھے ۔ یہ لوگ یوں جواب دیتے ہیں ۔
(آیت) ” وَقَالَ أَوْلِیَآؤُہُم مِّنَ الإِنسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِیَ أَجَّلْتَ لَنَا “ (6 : 128)
” انسانوں میں سے جو ان کے رفیق تھے وہ عرض کریں گے پروردگار ! ہم میں سے ہر ایک نے دوسرے کو خوب استعمال کیا ہے ‘ اور اب ہم اس وقت آپہنچے ہیں جو تو نے ہمارے لئے مقرر کردیا ہے ۔ “
اس جواب سے ان غافلوں کی غفلت اور ان کے ہلکے پن کا اندازہ ہوتا ہے اور اس دنیا میں شیطان انسانوں کو جس راہ پر گمراہ کرتا ہے اس کا اندازہ بھی خوب ہوجاتا ہے ۔ یعنی جب جنات ان لوگوں کو دھوکہ دے رہے تھے تو یہ دھوکہ کھانے والے بھی انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے تھے ۔ یوں یہ جنات ان افکار و تصورات کو ان لوگوں کے لئے خوشنما بناتے تھے ۔ اس طرح یہ لوگ ظاہر اور باطنی بدکاریوں میں مبتلا ہوجاتے تھے ۔ گویا شیطان عیاشیوں کے راستے سے انسان کو گمراہ کرتا ہے ۔ اس طرح اس دھوکے اور گراہ سازی کے ذریعے یہ شیاطین بھی خوب لفط اندوز ہوتے تھے ۔ یوں شیطان ان کو اپنی ہوس کا شکار بناتا اور ان سے کھیلتا اور ان کو اس جہان میں ابلیسی مقاصد کے لئے استعمال کرتا ۔ جبکہ یہ دھوکہ کھانے والے یہ سمجھتے کہ ہم نے شیطان کو گمراہ کردیا ہے ۔ اس طرح یہ خود بھی اس کھیل میں مشغول ہوتے ‘ دلچسپی لیتے اور لطف اندوز ہوتے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کہتے تھے ۔
(آیت) ” استمتع بعضنا ببعض “۔ (ہم ایک دوسرے سے خوب لطف اندوز ہوتے ۔ ) چناچہ مرنے تک ہماری یہی عیاشی جاری رہی اور پھر اچانک موت آگئی ۔ اور اب وہ جان رہے ہیں کہ یہ مہلت تو اللہ تعالیٰ نے دی تھی اور یہ جو عیاشیاں کرتے تھے ‘ اس وقت بھی دراصل وہ پوری طرح اللہ کے قبضہ قدرت میں تھے ۔ (اور اب ہم اس وقت پر آپہنچے ہیں جو تو نے ہمارے لئے مقرر کیا ہے ) اب اس مقام پر اللہ کی جانب سے فیصلہ کن جواب آتا ہے :
(آیت) ” قَالَ النَّارُ مَثْوَاکُمْ خَالِدِیْنَ فِیْہَا إِلاَّ مَا شَاء اللّہُ إِنَّ رَبَّکَ حَکِیْمٌ عَلیْمٌ(128)
” اللہ فرمائے گا ” اچھا اب آگ تمہارا ٹھکانا ہے ‘ اس میں تم ہمیشہ رہو گے ۔ “ اس سے بچیں گے صرف وہی جنہیں اللہ بچانا چاہے گا ‘ بیشک تمہارا رب دانا اور علیم ہے ۔ “
یعنی تمہارا ٹھکانا جہنم ہے ۔ یہاں تمہارا قیام ہوگا اور یہ قیام دائمی ہوگا ‘ (الا ما شاء اللہ (6 : 128) اور یہ لفظ (الا ماشاء اللہ (6 : 128) یہاں اس لئے استعمال ہوا ہے کہ اللہ کی مشیت مطلق ہے ‘ بےقید ہے ۔ اسلامی تصورات و عقائد میں اللہ مشیت کا بےقید ہونا ایک اساسی اصول ہے ۔ نہ اس پر کوئی چیک ہے اور نہ اس میں کوئی نقص ہے کیونکہ اللہ دانا اور علیم ہے اور وہ اپنی مشیت اور تقدیر کو پورے علم کے ساتھ چلاتا ہے ۔ اس کے علم کے ساتھ حکمت بھی موجود ہے ۔ اس منظر کے خاتمے سے پہلے اس منظر پر ایک تبصرہ سامنے آتا ہے اور یوں ایک حکمت ہمارے ہاتھ میں دے دی جاتی ہے ۔